Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے علاج کے لیے پلازمہ پر بین الاقوامی سیاست ہو رہی ہے؟

'کسی کے خون میں اینٹی باڈیز بننے کی مقدار اس کی قوت مدافعت پر منحصر ہوتی ہے۔' (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے دنیا بھر میں ابہام ہیں کہ دور ہونے کا نام نہیں لے رہے، اور آئے دن کوئی ایسا سازشی نظریہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے کورونا کے علاج میں پائی جانے والی پیچیدگیاں اور گہری ہو جاتی ہیں۔
انہی پیچیدگیوں کو لے کر آخری صورت حال 23 اگست کو پیدا ہوئی جب امریکی وفاقی ادارے ایف ڈی اے نے کورونا کے کچھ مریضوں کے لیے پلازمہ کے استعمال کی ایمرجنسی بنیادوں پر اجازت دے دی۔
لیکن اس اجازت کے ایک روز بعد ہی ایک اور امریکی صحت کے ادارے نیشل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے اس کی مخالفت کر دی۔ ادارے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس کی کوئی شہادت ابھی موجود نہیں کہ پلازمہ کے ذریعے کورونا کے علاج کو حتمی سمجھا جائے۔
ان اعداد و شمار کو بھی غلط قرار دیا گیا جو وائٹ ہاؤس میں ایف ڈے اے کے حکام نے پیش کیے تھے۔ ان اعدادو شمار کے مطابق امریکہ میں جن مریضوں کو پلازمہ لگایا گیا ان میں سے 35 فیصد مکمل صحت یاب ہوئے۔ جبکہ این آئی ایچ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کی تعداد3.5 فیصد ہے جن پر پلازمہ کے ذریعے صحت یابی کا کسی ایک حوالے سے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

پلازمہ علاج ہے یا نہیں؟

پلازمہ بنیادی طور خون کے اس مائع حصے کو کہتے ہیں جس میں کسی بھی بیماری کے اینٹی باڈیز یا بیماری کے خلاف قوت مدافعت کے فعال خلیے موجود ہوتے ہیں۔
عام طور پر ایک شخص کسی مرض سے صحت یاب ہوجائے تو اس کے جسم میں اس بیماری کے خلاف قدرتی طور پر قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس خون سے پلازمہ نکال کر اگر کسی دوسرے مریض مریض میں منتقل کیا جائے تو اس میں بھی اس بیمار کے خلاف قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے اور اس کے جلد صحت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر کورونا کے مریضوں میں پلازمہ کے استعمال پر مسئلہ کہاں پر ہے؟ ڈاکٹر طاہر سعید خون کی بیماریوں کے حوالے سے ماہر جانے جاتے ہیں اور انہوں نے حالیہ وبا میں کورونا کے سینکڑوں مریضوں کی دیکھ بھال کی ہے۔

ڈاکٹر طاہر کو ہر مریض پر پلازمہ کا اثر مختلف دکھائی دیتا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر طاہر کے مطابق یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ 'اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو جب کورونا ہوتا ہے تو اس کے صحت یاب ہونے کے بعد اس کے خون میں اینٹی باڈیز بننے کی مقدار اس کے قوت مدافعت کے نظام پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی میں بہت کم اور کسی میں بہت زیادہ اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔ جبکہ جس مریض میں پلازمہ منتقل کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی فزیشن کو مکمل علم ہونا چاہیے کہ بیماری کی کس اسٹیج پر کس طرح کے اینٹی باڈیز جسم میں داخل کیے جائیں تو مفید ہو سکتے ہیں۔'
ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی مریضوں کو پلازمہ لگایا بظاہر ان مریضوں کی صورت حال ایک دوسرے سے ملتی بھی تھی لیکن سب پر اس پلازمہ کا اثر مختلف دکھائی دیتا تھا۔ 'دوسرے لفظوں میں آپ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ پلازمہ ہی علاج ہے یا اس پر مکمل طور بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی افادیت ضرور نوٹ کی گئی ہے لیکن ابھی تک اس کے کثیر الاستعمال ہونے پر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔'

پاکستان میں پلازمہ پر تحقیق

پاکستان کے وفاقی ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے اپریل میں کورونا کے مریضوں میں پلازمہ کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ جس کے بعد ایک تحقیق بھی کروائی گئی کہ پلازمہ کس حد تک کورونا کے مریضوں کے لیے کارگر ہے۔ یہ تحقیقات پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کی گئی جس میں چار سو ایسے مریضوں کا پلازمہ استعمال کیا گیا جو کورونا سے صحت یاب ہوئے تھے۔

'پلازمہ کو لے کر جتنی تحقیق امریکہ میں ہو رہی ہے ہمارے ہاں (پاکستان میں) بھی تقریباً ویسی تحقیق جاری ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈریپ نے اس تحقیق کے لیے ڈاکٹر طاہر شمسی چئیرمین نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کراچی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے پلازمہ سے متعلق تحقیقات کرنا تھیں کمیٹی میں دیگر دو ماہرین ڈاکٹر جاوید اکرم اور ڈاکٹر بکھا رام دیوراجانی تھے۔ اس کمیٹی نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں پلازمہ سے متعلق کلینیکل ٹرائلز کے لیے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دیا جس نے کل 357 ایسے مریضوں کا پلازمہ لگایا جن کو کورونا وائرس کا مرض لاحق تھا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی نے اردو نیوز کو بتایا 'یہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور رپورٹ ڈریپ کے حوالے کی جا چکی ہے اس رپورٹ کےمطابق پلازمہ لگانے سے 92 فیصد مریضوں کو وینٹیلیٹرز سے بچایا گیا ہے۔ ان میں 77 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل تھیں۔ اور ان تحقیقات کے نتائج میں یہ مرتب کیا گیا کہ اگر پلازمہ پہلے پانچ روز کے اندر اندر لگایا جائے تو اس کی خاطر خواہ افادیت ہے البتہ مریض کے وینٹیلیٹر پر پہنچنے کے بعد اس کی افادیت میں نمایاں کمی دیکھی ہے۔'

ڈاکٹر طاہر شمسی نے امریکہ میں ایف ڈی اے کی جانب سے پلازمہ کو طریقہ علاج تسلیم کیے جانے کے اقدام کو ایک سیاسی معاملہ قرار دیا ہے۔ فائل فوٹو: عرب نیوز

ایک سوال کے جواب میں کہ نتائج اگر اتنے حوصلہ افزا ہیں تو پھر دنیا بھر میں بحث کس بات پر ہو رہی ہے؟ ڈاکٹر شمسی کا کہنا تھا 'ہم سائنسی اور میڈیکل تحقیقات کی جزئیات کو نہیں سمجھتے۔ یہ کلینیکل ٹرائل انتہائی محدود نوعیت کے تھے اور اس میں بھی موازنہ کے ٹرائل شامل نہیں۔ اور موازنہ کے کلینیکل ٹرائل جاننے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔'
ڈاکٹر شمسی کے مطابق موازنہ ٹرائل ایک انتہائی باریکی کا کام ہے جس میں سیمپلنگ کے لیے کمپیوٹر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے مریض کا انتخاب نہیں کر سکتے اسی طرح جتنے مریضوں کو پلازمہ لگایا جانا ہو اتنی ہی تعداد میں ایسے مریض بھی ہوں جن کو پلازمہ نہیں لگایا جانا۔ کس کو پلازمہ لگنا ہے اور کس کو نہیں اس کا انتخاب انسان نہیں کریں گے۔ تو ایسے کلینیکل ٹرائل کے نتائج کے بعد صورت حال تھوڑی واضع ہو گی کہ پلازمہ مریضوں پر کس حد تک موثر ہے۔ 'یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ پلازمہ کو کورونا کا موثر طریقہ علاج ہے۔'

کس کو پلازمہ لگنا ہے اور کس کو نہیں اس کا انتخاب انسان نہیں کریں گے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر طاہر شمسی نے امریکہ میں ایف ڈی اے کی جانب سے پلازمہ کو طریقہ علاج تسلیم کیے جانے کے اقدام کو ایک سیاسی معاملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے 'ایف ڈی اے اور این آئی ایچ ایک بات کر رہے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے چونکہ صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ وہ صحت کے اداروں میں مداخلت کر رہے ہیں، اسی بات کو ایسے لفظوں میں کہلوایا گیا ہے جیسے حتمی علاج دریافت کر لیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
پلازمہ کو لے کر جتنی تحقیق امریکہ میں ہو رہی ہے ہمارے ہاں بھی تقریباً ویسی تحقیق جاری ہے اور نتائج میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پلازمہ لگائے جانے کے بعد آپ نے اس کے نتائج کے معیار کی ڈیوٹی یا پیمانہ کیا رکھنا ہے۔ امریکی پیمانے زیادہ سخت ہیں لیکن اس کو ہم بریک تھرو نہیں کہ سکتے۔ شاید امریکی عوام کو الیکشن سے پہلے یہ بتانے کے لیے کہ حکومت نے کوئی خاطر خواہ حل تلاش کر لیا ہے اس طرح کا فیصلہ اور اعلان کیا گیا ہے۔'

شیئر: