Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موٹروے پر کیا ہوا: ’ان پر کوئی دباؤ تھا نہ پولیس کا خوف‘

فریحہ ادریس کے مطابق متاثرہ خاتون سخت صدمے میں تھیں اور بچے ڈرے ہوئے تھے (فوٹو: سوشل میڈیا)
سینیئر صحافی اور ٹی وی اینکر فریحہ ادریس نے سیالکوٹ لاہور موٹروے پر  زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون سے بات چیت کی اور پھر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ٹویٹس کے ذریعے اس کی تفصیلات بیان کیں۔
فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون اس رُوٹ کے ذریعے ماضی میں بھی کئی بار سفر کر چکی ہیں۔ وہ اپنے فیملی فرینڈز کے یہاں دعوت پر آئی تھیں اور انہوں نے انہیں اس راستے پر سفر کرنے سے بار بار منع بھی کیا لیکن خاتون کا کہنا تھا کہ ’وہ پہلے بھی یہاں سے سفر کر چکی ہیں اور یہ راستہ محفوظ ہے۔‘
تاہم اس مرتبہ ان کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا۔ متاثرہ خاتون نے فریحہ ادریس کو بتایا کہ ’جب گاڑی رُک گئی تو میں نے فوراً موٹروے پولیس کے ایمرجنسی نمبر 130 پر کال کی اور انہیں اپنا مسئلہ بتانے کے بعد اپنی لوکیشن سے آگاہ کیا۔‘
’موٹروے پولیس نے مجھے ایک لوکل نمبر دیا اور کہا کہ اس نمبر سے میں مدد لے سکتی ہوں۔ میں نے اس نمبر پر کال کی اور انہیں بھی اپنی لوکیشن سے آگاہ کیا۔

 

’میں گاڑی میں اپنے بچوں کے ساتھ مدد کا انتظار کر رہی تھیں اور صورت حال سے آگاہ تھی اس لیے گاڑی کو اندر سے لاک کر دیا تھا۔‘
 فریحہ ادریس نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ متاثرہ خاتون کے مطابق ’اس دوران دو افراد اچانک سیدھے ان کی گاڑی کی طرف آتے دکھائی دیے۔ ان کے ہاتھ میں بندوق بھی تھی اور انہوں نے آکر مجھے دھمکانا شروع کر دیا۔‘
’ان کے ہاتھ میں ڈنڈے اور پتھر بھی تھے، میں خوف زدہ ہو گئی لیکن گاڑی وہاں سے نکال بھی نہیں سکتی تھی۔ انہوں گاڑی کے شیشے توڑ کر مُکوں سے مجھے مارنا شروع کر دیا اور ساتھ میرے بچوں کو بھی مارا پیٹا۔‘
متاثرہ خاتون کے مطابق ’ان میں سے ایک شخص نے میری دو سالہ بیٹی کو پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی بچی کو بچانے کے لیے اس کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا اور وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا، مجھے یقین تھا کہ وہ گاڑی رُک جائے گی اور ان کی مدد کی جائے گی۔‘
’افسوس کہ اس گاڑی میں سے مجھے مدد نہیں ملی۔ اس دوران میں صرف اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند تھی اور انہیں بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ انہوں نے میرے بچوں کو بُری طرح پیٹا۔‘
متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’میرے بچوں اور خود ان کا بھی خون بہہ رہا تھا۔ بچوں کے جوتے روڈ پر پڑے ہوئے تھے۔‘
’ان کے عزائم واضح تھے، مجھے حیرانی نہیں ہوئی کہ انہیں کسی نے میرے بارے میں اطلاع دی ہے۔ انہوں نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نظر آرہے تھے۔‘
متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ’میرا موبائل فون نیچے گر گیا جو کہ بعد میں گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے ملا۔‘
 ’جب وہ مجھے ویرانے میں لے جا رہے تھے تو اس دوران بھی میں نے اپنے بچوں کو یہ کہتے ہوئے تسلی دی کہ میں ٹھیک ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس دوران ان میں سے ایک شخص نے میرے سر پر بندوق ماری۔ میں اس دوران دعا پڑھ رہی تھی اور اپنے بچوں سے کہا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ بچوں نے بھی دعا پڑھنا شروع کر دی۔‘ 
فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ’وہ دونوں افراد انہیں اور ان کے بچوں کو جانوروں کی طرح گھسیٹ رہے تھے، اس دوران میرا چوری کیا گیا بیگ ان سے گر گیا جس میں پانچ لاکھ روپے کا سونے کا کڑا، ایک لاکھ روپے نقد اور دیگر قیمتی اشیا موجود تھیں۔‘
’اس کے بعد انہوں نے مجھے گن پوائنٹ پر رکھا اور پھر بیگ تلاش کیا۔‘
متاثرہ خاتون کے مطابق ’اس کے بعد دونوں افراد مطمئن نظر آئے اور پھر مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ کسی دباؤ کا شکار نظر آرہے تھے نہ ہی انہیں پولیس کے آنے کا کوئی خوف تھا۔ اس دوران پولیس کو کی گئی پہلی کال کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔‘
’بعد میں موٹروے پولیس وہاں پہنچ گئی۔ موٹروے پولیس کے اہلکاروں نے گاڑی میں خون اور ٹوٹے ہوئے شیشے دیکھے اور مقامی پولیس کو فون کر کے اطلاع دی۔‘
فریحہ ادریس نے کہا کہ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ’وہ بُری طرح زخمی ہو چکی تھیں، ان کے پیر سُوجھے ہوئے تھے اور سر سے خون بہہ رہا تھا۔ بچوں کا بھی یہی حال تھا۔‘
’جو فیملی متاثرہ خاتون اور ان کے بچوں کو لینے تھانے گئی اس کا کہنا تھا کہ وہ سب کیچڑ میں لتھڑے ہوئے تھے اور انتہائی خوف زدہ تھے۔‘
فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ اس فیملی کے مطابق بچوں نے کئی گھنٹے تک کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
’متاثرہ خاتون کی فیملی کا کہنا ہے کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اور یہ واقعہ سراسر امن و امان سے متعلقہ ہے۔‘
فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ وہ خاتون بہت صدمے کی حالت میں تھیں۔ متاثرہ خاتون کے مطابق ’میری گاڑی کی شیشے مخصوص قسم کے تھے اور یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی باہر سے دیکھ کر یہ بتا دے کر میں گاڑی میں اکیلی ہوں۔‘

متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ میری گاڑی کے شیشے ایسے تھے کہ کوئی یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ میں اکیلی ہوں (فوٹو: سوشل میڈیا)

’جب خاتون نے اس فیملی کو کال کی جن کے گھر وہ ڈنر پر گئی تھیں تو اس وقت وہ بہت غمگین اور دکھی تھیں، جب ان کے قریبی دوست انہیں لینے آئے تو پولیس نے خاتون کو گھیر لیا۔ وہ انہیں طبی معائنے کے بغیر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔‘
فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ سخت دباؤ کا شکار فیملی نے پولیس سے گزارش کی کہ خاتون کو جانے دیا جائے۔ ان کے دوست کے مطابق ’ان کی آنکھیں باہر نکل رہی تھیں اور وہ کانپ رہی تھیں۔‘  
’حتیٰ کہ انہوں نے اپنے دوست اور فیملی کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات زیادہ غمگین اور دل دہلا دینے والی تھی۔‘
فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ پولیس نے متاثرہ خاتون کی میڈیکل رپورٹ کرانے پر زور دیا جو کہ یقیناً ایک پیشہ وارانہ ضرورت تھی۔

تھانے میں بچے انتہائی خوف زدہ تھے اور انہوں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی (فوٹو: سوشل میڈیا)

متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس بات کو خفیہ رکھا جائے گا لیکن وہ افسردہ تھیں کہ ان کی اطلاع افشا کر دی گئی۔‘
فریحہ ادریس کے مطابق متاثرہ خاتون نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ انہوں نے پہلے دن کوئی بات بھی نہیں کی۔ پھر اگلے روز انہوں نے مختصر بات کی لیکن یہ یقیناً ان کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔
ٹی وی اینکر نے اپنی ٹویٹس میں بتایا کہ ایک لمحہ آیا جب وہ (متاثرہ خاتون) فرش پر بیٹھ گئیں۔ فیملی کے مطابق وہ زور زور چلاتی رہیں، ہمارے میں سے کسی کا اتنا دل نہیں تھا کہ انہیں روک سکے۔
’ان کی دوست نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے کچھ نہیں کہا، لیکن ان کی آنکھوں نے سب کچھ کہہ دیا۔‘
فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ ’اب وقت ہے کہ پاکستان اس ایک مہم پر کھڑا ہو جائے کہ جو بھی اس واقعے کے ذمہ داران ہیں انہیں سزا دی جائے۔‘ 
یاد رہے کہ بدھ 9 ستمبر کی رات سیالکوٹ لاہور موٹروے پر گجرپورہ کے قریب ایک خاتون کے ساتھ زیادتی اور ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔

شیئر: