Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریپ کیس: مرکزی ملزم کی گرفتاری میں تاخیر کیوں؟

موٹر وے ریپ کیس میں ایک ملزم شفقت علی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نواح میں موٹر وے پر ہونے والے ریپ کا مرکزی ملزم ابھی تو قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا۔
اس حوالے سے سی سی پی او آفس نے تصدیق کی ہے کہ ملزم کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے ایک بیان کے مطابق ملزم سے متعلق ابھی کسی بھی طرح کی معلومات میڈیا کے ساتھ شئیر نہیں کی جا سکتیں۔
پنجاب سی ٹی ڈی (کاوئنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) کے ایک اعلیٰ افسر جو ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کے لیے بنائی گئی چھاپہ مار ٹیموں میں سے ایک ٹیم کا حصہ ہیں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم ملزم کی گرفتاری کے دو مرتبہ قریب پہنچے لیکن بدقسمتی سے اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔ پہلی دفعہ اس کے گھر شیخوپورہ میں جب پولیس پہنچی تو وہ دو گھنٹے پہلے وہاں سے فرار ہو چکا تھا۔ دوسری بار 17 ستمبر کو ایک خفیہ جگہ پر موجودگی کی ہمیں اطلاع ملی تو چھاپے سے پہلے ہی وہ وہاں سے نکل چکا تھا۔‘
سی ٹی ڈی کے پولیس افسر جنہوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی نے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ ’اس وقت ٹیکنالوجی سے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی کیونکہ ملزم اب موبائل فون استعمال نہیں کر رہا اور اگر کر بھی رہا ہے تو وہ صرف ایک ہی بار استعمال کے بعد وہ فون یا سم دوبارہ استعمال نہیں کرتا۔ اور ہمیں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ اس نے اپنا حلیہ بھی تھوڑا تبدیل کر لیا ہے اور اب وہ کلین شیو ہے۔ لیکن ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ وہ زیادہ دیر پولیس کی نظر سے دور نہیں رہ سکتا کیونکہ اس طرح چھپ کے زندگی گزارنے کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو کہ اب اس کے پاس نہیں ہیں۔ پولیس کے مخبر بھی ہر جگہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پولیس نے ملزم عابد ملہی کی بیوی کو بھی حراست میں لے رکھا ہے اور اسی کی نشان دہی پر کئی جگہوں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ملزم قانون کی گرفت سے بچ نکلا۔

ریپ واقعہ کے بعد پنجاب پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے مطابق پولیس کی دو درجن سے زائد چھاپہ مار ٹیمیں ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کے لیے متحرک ہیں اس کے علاوہ سیف سٹی اتھارٹی، سی ٹی ڈی اور انٹیلی جنس کے ادارے بھی پولیس کی مسلسل مدد کر رہے ہیں۔
سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ پولیس کے کام کرنے میں کوئی کوتاہی ہے۔ اس طرح کے ملزم آخر کار پکڑے ہی جاتے ہیں۔ یہ کیس بھی اگر اتنا ہائی پروفائل نہ بن جاتا تو یہ ملزم بھی ابھی تک گرفتار ہو چکا ہوتا۔ میڈیا پر بے انتہا رپورٹنگ کی وجہ سے ملزم کو آگاہی ہوئی اور وہ روپوش ہے۔ میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ تھوڑی تاخیر تو سکتی ہے لیکن ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘

موٹر وے ریپ واقعہ کے خلاف ملک کے تمام بڑے شہروں میں سول سوسائٹی نے مظاہرے کیے۔ فوٹو: اے ایف پی

سابق آئی جی خواجہ خالد سمجھتے ہیں کہ ملزم اس وقت اپنے زندہ رہنے (سروائیول) کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ’اس وقت وہ اپنی موت سے بھاگ رہا ہے اس لیے وہ اپنی ہر ممکن کوشش میں ہے کہ پولیس کے ہاتھ نہ لگے۔ اور جب آپ سماجی طور پر کٹ جاتے ہیں دوستوں سے رشتہ داروں سے تو پھر ایسی حالت میں آپ کی یہ کوشش زیادہ دیر تک کارگر نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ اس ملزم کو کوئی بھی دوسرا پناہ نہیں دے گا چاہے اس کا رابطہ کسی اور بھی جرائم پیشہ عناصر سے ہو۔ کوئی بھی اس وقت رسک نہیں لے سکتا۔ اسی بنا پر میں کہ رہا ہوں کہ اس کا پکڑا جانا اٹل ہے۔‘
سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسر نے گزشتہ دنوں میں کی جانے والی ملزم کی گرفتاری کی کوششوں سے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہا ’ملزم کی اس وقت تک کا تمام سفری ریکارڈ اور اس سے تعلق رکھنے والے ہر شخص تک پولیس پہنچ چکی ہے۔ بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی جہاں اس کا ایک بار بھی جانا ہوا ہے پولیس وہاں بھی پہنچ چکی ہے۔ اس کا شناختی کارڈ منسوخ کیا جا چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملزم کی گرفتاری کے اقدامات کے ساتھ ساتھ پولیس نے اس کی سماجی ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج بھی ملے ہیں۔‘

شیئر: