Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مریم کی اپیل نواز کی حاضری یقینی بنانے کے بعد سنیں گے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کی اپیلوں کے خلاف سماعت نواز شریف کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے عمل مکمل ہونے تک ملتوی کر دی۔ 
بدھ کو جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے کہا ’ہم نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے اس لیے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں کو اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد سنی جائیں گی۔‘
عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
اس کے بعد نوازشریف کی اپیل پر سماعت کا آغاز ہوا۔ 
عدالت میں دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ایڈشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کاؤنٹی کورٹ سے وارنٹ کی تعمیل کا کیا بنا؟ 
ایڈشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا آپ اس کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیں جیسے ہی کاؤنٹی کورٹ کی تعمیلی رپورٹ موصول ہوتی ہے وہ عدالت میں جمع کروا دی جائے گی۔ 
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس طرح طویل عرصے کے لیے سماعت ملتوی نہیں کر سکتے، اگر ایک مقررہ وقت کا پتہ چل جاتا ہے تو ہم اس حساب سے تاریخ مقرر کر دیں گے۔ 
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے بیٹے کے سیکرٹری نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا ہے اور سیکرٹری کے مطابق نواز شریف وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے تیار ہیں۔ 
عدالت نے مزید ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی۔ 

کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟

مریم نواز کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا کمرہ عدالت ارکان اسمبلی وکلا اور لیگی کارکنوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ 

'شہباز شریف ایک وفادار بھائی ہیں اور انہیں علیٰحدہ ہونا ہوتا تو آج وزیر اعظم ہوتے، شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھائی کو ترجیح دی ہے۔' فوٹو: ٹوئٹر

مریم نواز کمرہ عدالت پہنچیں تو ارکان اسمبلی اور کارکن مریم نواز کے گرد بیٹھ گئے اور عدالت میں ججز کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک محفل سی سجا لی۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی موضوع بحث بنی رہی۔
مریم نواز نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران عسکری قیادت سے پارلیمانی رہنماؤں کی ہونے والی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا 'آرمی چیف سے ملاقات گلگت بلتستان کے ایشو پر کی گئی، یہ ایک سیاسی ایشو ہے اور عوامی نمائندوں کی مشاورت سے یہ ایشو حل ہونا چاہیے۔‘  ’یہ فیصلے جی ایچ کیو میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے چاہئیں۔' 
مریم نواز نے کمرہ عدالت میں صحافیوں کو بتایا 'میری اطلاع کے مطابق یہ ملاقات اسلام آباد میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوئی اور سیاسی قائدین کو اس طرح کی ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں۔'
 'مجھے نہیں پتہ کہ نواز شریف کے علم میں یہ ملاقات تھی یا نہیں لیکن سیاسی قائدین کو اس قسم کی ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں۔' 
مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کے کسی نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات نہیں ہوئی۔

عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ فوٹو: ٹوئٹر

نواز شریف کی صحت سے متعلق مریم نواز نے کہا کہ 'میاں صاحب کی قوت مدافعت کمزور ہے اور ان کی صحت آپریشن کی متقاضی ہے، لیکن کورونا وائرس کے باعث ان کا آپریشن نہیں ہوسکتا۔'
شہباز شریف سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'شہباز شریف ایک وفادار بھائی ہیں اور انہیں علیحدہ ہونا ہوتا تو آج وزیر اعظم ہوتے، شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھائی کو ترجیح دی ہے۔'
سماعت ملتوی ہونے کے بعد مریم نواز کمرہ عدالت سے باہر آئیں تو کارکنوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان ایک بار پھر دھکم پیل شروع ہو گئی اس دوران پہلے مریم نواز کو واک تھرو گیٹ سے دھکا لگا جیسے ہی سنبھلیں تو ان کے ذاتی گارڈ نے مغالطے میں اپنی کہنی مریم نواز کو مار دی جو کہ ان کے کندھے پر جا لگی۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر کیپٹن صفدر نے فوراً آگے بڑھے اور ان کی خیریت دریافت کی۔ کیپٹن صفدر کے استفسار پر مریم نواز نے بتایا کہ ان کے ذاتی گارڈ کی کہنی ہی ان کو لگی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں