Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غریبوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے

انڈیا کے سرکاری سکولوں میں 26 فیصد نشستیں غریبوں کے لیے مختص ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
کوروناوائرس سے دنیا بھر میں کتنی تباہی ہو رہی ہے اس کے بارے میں تو آپ روز ہی پڑھتے ہوں گے لیکن کیا کبھی اس کے فوائد  پر بھی آپ کی نگاہ گئی ہے۔
غریب بچوں کی تعلیم ہی لے لیجیے، بے چارے روز سکول جاتے تھے لیکن وہاں تعلیم کے نام پر انہیں جو حاصل ہوتا تھا وہ سرے سے ہی سکول نہ جانے والے بچوں سے کس طرح بہتر تھا؟
شکر ہے کہ جب سے وبا پھیلی ہے یہ مسئلہ بالکل ختم ہوگیا ہے۔ نہ بچے سکول جا رہے ہیں اور نہ والدین کو اب یہ شکایت کرنے کا ہی موقع مل رہا ہے کہ وہاں سے کچھ پڑھ کر نہیں آتے۔
لیکن کچھ لوگ ہیں جن سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ غریب بچے بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ سکون کے کچھ لمحےگزار لیں۔ اس فہرست میں دلی ہائی کورٹ کا نام کافی اوپر ہے۔
عدالت نے دلی کے پرائیویٹ سکولوں کو ہدایت دی ہےکہ غریب بچوں کو سمارٹ فون یا ٹیبلٹ وغیرہ مہیا کی جائیں تاکہ وہ آن لائن کلاسز میں شریک ہو سکیں۔
آپ سوچیں گے کہ مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں ایسے بچوں کا کیا کام ہے جن کے پاس لیپ ٹاپ بھی نہ ہوں؟ تو انڈیا میں ایک قانون ہے جس کے تحت ہر پرائیویٹ سکول کے لیے لازمی ہے کہ وہ آٹھویں جماعت تک ہر کلاس میں 26 فیصد نشستیں غریب بچوں کے لیے مختص کرے۔ اس طرح یہ غریب بچے دوسرے غریب بچوں کی طرح صرف سکول جاتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں پڑھتے بھی ہیں۔
لیکن اب سکول بند ہیں اور غریبوں کو یہ سمجھ آرہا ہے کہ امیروں کے ساتھ پڑھنے کے فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ امیروں کی کلاسز تو مزے سے چل رہی ہیں، گھر پر بیٹھتے ہیں اور مزے سے آن لائن تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جو ماں باپ اپنے بچوں سے ان کی ’سکرینز‘ چھپاتے پھرتے تھے، اب ٹیبلٹ اور کمپیوٹر لے کر ان کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔

غریب بچوں کو ٹیبلٹ مہیا کرنا دلی کے پرائیویٹ سکولوں کی ذمہ داری ہے۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن غریبوں کے بچے آزاد گھوم رہے ہیں۔ اور اگر اقوام متحدہ کی مانیں تو ان میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ مالی دشواریوں کی وجہ سے سکول واپس ہی نہیں جا پائیں گے۔ وہ گھر پر رہ کر کام کاج میں ماپ باپ کا ہاتھ بٹائیں گے اور ایسا کرنے سے آپس میں ان کی بانڈنگ مضبوط ہوگی۔
اگر اعداد و شمار میں آپ کی دلچسپی ہو تو ذرا سوچیے کہ رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں امیر اور غریب ممالک میں ان بچوں کا تناسب کیا تھا جو پرائمری سکول بند ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے تھے؟ چار گنا سے بھی زیادہ۔
انڈیا میں تقریباً 70 فیصد بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے سکولوں میں جاتے ہیں جہاں یا تو عمارت نہیں ہوتی یا فرنیچر، ٹائلٹ ہوتا ہے تو پانی نہیں ہوتا، اور یہ سب بھی ہو تو ٹیچر نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو ان کی پڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
ملک کے تمام سرکاری سکولوں میں سے مٹھی بھر کو چھوڑ کر باقی سب میں آن لائن کلاسز کا انتظام نہیں ہے۔ جہاں آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں وہاں بچوں کے پاس کمپیوٹر نہیں ہیں۔ کمپیوٹر ہیں تو انٹرنیٹ نہیں ہے اور اگر یہ دونوں بھی ہیں تو بجلی کا کیا بھروسہ ہے؟ آئی تو آئی ورنہ لوگ پہلے بغیر بجلی کے رہتے بھی تھے اور پڑھتے بھی تھے۔
اس لیے اب صورتحال یہ ہے کہ امیر اور غریب کا فرق اور بڑھتا چلا جائے گا۔ کم سے کم اقوام متحدہ کا تو یہ ہی خیال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بچوں کے سکول جانے سے یہ فرق ختم یا کم ہو رہا تھا لیکن اچھی تعلیم ملتی ہے تو ایک امید تو بندھتی ہی ہے کہ آگے چل کر ہمارے دن بھی بدل سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق ڈھائی کروڑ بچے سکول واپس نہیں جا سکیں گے۔ فوٹو اے ایف پی

قدرتی آفات کا سب سے زیادہ فرق غریبوں پر ہی پڑتا ہے۔ اور غریبوں میں بھی عورتوں پر سب سے زیادہ۔ بس ہمیں پتا نہیں چلتا کیونکہ انہیں ویسے بھی یہ سب برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے، اور مشکلیں برادشت کرنے کی عادت بھی نہ ہو تو غریب ہونے کا پوائنٹ ہی کیا ہے۔
اور اگر عادت نہ ہو تو اب ڈال لینی چاہیے کیونکہ ایک سٹڈی کے مطابق جو بچے فی الحال تیسری کلاس میں ہیں اور ان کی پڑھائی صرف تین مہینے کے لیے بھی بند ہوئی ہے، تو دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے وہ پڑھائی میں اتنا پیچھے رہ جائیں گے کہ ان میں سے 72 فیصد پڑھائی چھوڑ دیں گے اور اگر نہیں بھی چھوڑتے تو سیکھیں گے کچھ نہیں۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کے ماڈلز اکثر پوری طرح درست ثابت نہیں ہوتے۔ بہت سے فیکٹرز ہوتے ہیں جن سے حالات بہتر یا خراب ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ حکومت ان بچوں کی پڑھائی کا نقصان پر کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرے اور وہ تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جائیں۔
اور جب وہ ایسا کر رہے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ آپکی اور ان کی آنکھ کھل جائے۔ سچ صرف اتنا ہے کہ جب سکول کھلیں گے تو بڑی تعداد میں غریب بچے واپس نہیں جائیں گے کیونکہ ان کے ماں باپ شدید مالی بحران سے گزر رہے ہیں اور ان کے پاس اس وقت یہ آپشن موجود نہیں ہے کہ انہیں بٹھا کر کھلائیں، اس لیے انہیں کام پر لگایا جا رہا ہے۔

آن لائن کلاسز کے وسائل نہ ہونے کے باعث غریب بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو اے یف پی

اور ایسے میں ہم نے ایک سینئر سیاسی رہنما کو کہتے سنا کہ ہم غریب بچوں کو سکول واپس بھیجنے کی بات اس لیے کر پاتے ہیں کہ وہ ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں۔ اپنے بچے سکول بھیجنے کا سوال ہو تو ہمیں کورونا وائرس کا خوف ستانے لگتا ہے۔
بہن، یہ غریب ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں کیونکہ ہم غریب نہیں ہیں۔ چونکہ ہم غریب نہیں ہیں اس لیے ہمارے بچے بھی غریب نہیں ہیں اور اس لیے ان کے پاس وہ تمام سہولتیں موجود ہیں جو گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے دو چار مہینے وہ سکول نہیں جائیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں زندہ رکھنے کے لیے چند کلو اناج دینا مشکل ہو رہا ہے، لیپ ٹاپ تو بہت دور کی بات ہے۔
لیکن آپ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والوں سے بات کریں تو لگتا ہے کہ جیسے حکومتیں ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ گئی ہیں، انہوں نے سوچ لیا ہے کہ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا، لیکن ہم ایک کلاس میں چالیس پچاس بچے بٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
لیکن یہ حساب لگانا کتنا مشکل کام ہے کہ سب بچوں کو روز بلانے کی ضرورر نہیں ہے۔ اگر چالیس میں سے ہر روز صرف تیرہ بچوں کو بھی بلایا جائے تو تین دن میں کلاس کا ہر بچہ کم سے کم ایک مرتبہ ٹیچر کی شکل ضرور دیکھ لے گا۔
پڑھائی تو اچھے دنوں میں نہیں ہوتی تھی تو اب کیا ہوگی لیکن کم سے کم ٹیچروں کی شکلیں تو یاد رہیں گی۔
غریبوں کے لیے اتنا بھی کافی ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: