Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انصاف چار لوگوں کو لٹکانے سے نہیں ملے گا‘

یہ بحث ہی فضول ہے کہ لڑکی کے گھر والوں نے پہلے ریپ کی شکایت کی تھی یا نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اگر وہ لڑکی اب بھی زندہ ہوتی جس کی موت نے انڈیا کے ضمیر کو ایک مرتبہ پھر تھوڑا سا جھنجھوڑا ہے اور اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ اگر واقعی تمہارے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی تھی تو تم نے فوراً کیوں نہیں بتایا، اس وقت تک کیوں انتظار کیا جب ہسپتال میں مجسٹریٹ تمہارا بیان ریکارڈ کر رہا تھا، تو وہ کیا کہتی؟
وہ شاید پوچھنے والے کی ہمت اور بے حسی کی داد دیتی یا سوچتی کہ دیوار میں سر مارنے سے کیا فائدہ، پہلے ہی کب کسی نے ہمارا درد سمجھا تھا جو اب سمجھے گا؟ یا شاید کہتی کہ بولنے اور سوچنے سمجھنے کی حالت میں ہوتی تو شاید دیر نہ کرتی یا یہ کہ اس وقت لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی دقت ہو رہی تھی، ورنہ میں آن لائن ہی تفصیلی شکایت درج کرا دیتی، آئندہ دھیان رکھوں گی، ہمارے ساتھ تو زیادتیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔
جو لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں ان کی دلچسپی صرف یہ ثابت کرنے میں ہے کہ لڑکی کی جان گئی سو گئی لیکن زیادتی نہیں ہوئی تھی، یہ الزام جھوٹا ہے۔ اور ریپ دوسری ریاستوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن بڑی خبر صرف تبھی بنتی ہے جب کسی ایسی ریاست میں کوئی واقعہ پیش آجائے جہاں بی جے پی کی حکومت ہو۔
لڑکی کی عمر صرف انیس برس تھی، وہ چودہ ستمبر کو برہنہ اور شدید زخمی حالت میں ایک کھیت میں پڑی ہوئی ملی تھی، کئی دن ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی اور پھر گذشتہ ہفتے زندگی کی جنگ ہار گئی۔
انتہائی غریب بھی تھی اور دلت بھی، یعنی اس کا تعلق ہندو معاشرے کے سب سے نچلے طبقے سے تھا اور پھر ریپ کا الزام اور وہ بھی اونچی ذات والوں پر، اس لیے کچھ بولتی بھی تو سنتا اور مانتا کون۔
پولیس نے راتوں رات اس کی لاش کو نذر آتش کردیا، اس کے گھر والے لاش کو ایک آخری مرتبہ گھر لے جانے کی فریاد کرتے رہے۔ پولیس نے شاید سوچا ہوگا کہ اتنے غریب لوگ ہیں، آخری رسومات کیسے ادا کریں گے، ہم تو آئے ہی ہیں، یہ کام بھی نمٹا دیتے ہیں۔

انڈیا میں روزانہ 87 خواتین کے ساتھ ریپ ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ویسے بھی ریپ کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ کبھی کبھار ہوتا ہو۔ انڈیا میں روزانہ 87 خواتین کے ساتھ ریپ ہوتا ہے اور یہ وہ کیسز ہیں جو ریکارڈ پر آجاتے ہیں، لیکن آپ عورتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں سے بات کریں گے تو وہ سب سے پہلے آپ کو بتائیں گے کہ کبھی شرم اور بدنامی کی وجہ سے اور کبھی خوف کی وجہ سے زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
یہ بحث ہی فضول ہے کہ لڑکی کے گھر والوں نے پہلے ریپ کی شکایت کی تھی یا نہیں (حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تحریر دی تھی) یا لڑکی اس حالت میں تھی بھی کہ یہ بتا پاتی کہ اس پر کیا گزری ہے۔
 اس سے جواب مانگنے والے چاہتے ہیں کہ اسے پہلے ٹھنڈے دماغ سے رپورٹ لکھوانا چاہیے تھی، ملزمان کے نام پتے لکھواتی، تھوڑا وقت ہوتا تو ان کے شناختی کارڈز کی کاپی بھی لاکر دیتی کیونکہ گاؤں دیہات میں تو سب ایک دوسرے کو جانتے ہی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں، اگر ملزمان سے ان کے آدھار کارڈ کی کاپی مانگتی تو کیا وہ منع کردیتے؟

ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی غریب بھی تھی اور دلت بھی اس لیے کچھ بولتی بھی تو مانتا کون (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد اطمینان سے ہسپتال جاتی اور علاج کراتی، بچ جاتی تو سکون سے باقی زندگی گزارتی، مر جاتی تو بھی کیا بڑا نقصان تھا، آج کل ویسے ہی زندگی میں کیا مزہ باقی رہ گیا ہے۔
سنہ 2012 کے بس گینگ ریپ کیس کے بعد شاید پہلی یا دوسری مرتبہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے ہیں، مظاہرے ہو رہے ہیں اور انصاف کی گہار لگائی جارہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انصاف صرف چار لوگوں کو پھانسی دینے یا دو چار پولیس والوں کو معطل کرنے سے نہیں ملے گا، کیونکہ ہر روز ریپ کا شکار ہونے والی باقی 86 عورتوں کا اب بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پھانسی تو دلی بس گینگ ریپ کیس کے مجرموں کو بھی دی گئی تھی۔
اس لڑکی اور اسی کرب سے گزرنے والی دوسری عورتوں کے لیے انصاف کا آغاز اس وقت ہوگا جب ہمارے اپنے گھروں میں ہمارے لاڈلے بیٹوں کو عورتوں کی عزت کرنا سکھایا جائے گا، چاہے وہ غریب ہوں، دلت یا پھر ہمارے جیسے گھروں سے ہی تعلق رکھتی ہوں۔

انصاف چار لوگوں کو پھانسی دینے یا دو چار پولیس والوں کو معطل کرنے سے نہیں ملے گا (فوٹو: سوشل میڈیا)

بات تھوڑی عجیب ہی لگتی ہے، لیکن جو لوگ ریپ کرتے ہیں اور جو ریپ کا شکار ہوتے ہیں وہ چاند سے اتر کر نہیں آتے۔
اُتر پردیش کے وزیراعلٰی نے سی بی آئی سے انکوائری کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ جیسے سی بی آئی والے دودھ سے دھلے ہوں اور امیر غریب، اُونچ نیچ اور سیاسی وفاداریوں کے فریب سے بالاتر ہوں۔ یہ سب بھی پولیس والے ہی ہوتے ہیں، اور انہیں احکامات دینے والے وہی لوگ ہیں جو پولیس کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اگر ہر کیس میں انصاف ہو، یا کم سے کم جرم کرنے والوں کو یہ خطرہ تو ہو کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی، تو ہوسکتا ہے کہ حالات کچھ بہتر ہو جائیں۔ پھر جرم کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہو۔
لیکن گذشتہ ہفتے ہی ہم نے بابری مسجد کی مسماری کے کیس میں بھی دیکھا کہ عدالت نے تمام 32 ملزمان کو بری کردیا۔ یہ تو ذیلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک سب کو معلوم ہے کہ بابری مسجد مسمار ہوئی تھی، لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس نے کی تھی۔

سب کو معلوم ہے کہ بابری مسجد مسمار ہوئی تھی، لیکن یہ نہیں معلوم کہ کس نے کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

اور جس نے بھی کی تھی اسے پکڑ کر آپ مقدمہ چلا لیں لیکن اس پورے واقعے سے لال کرشن ایڈوانی اور مرلی منوہر جشی جیسے رہنماؤں کا کوئی تعلق نہیں تھا حالانکہ وہ پورے ملک میں رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ تک کہا کہ مسجد کے قریب سٹیج پر موجود رہنما کار سیوکوں کو مسجد منہدم کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کار سیکوں کو شاید اس لیے بلایا گیا تھا کہ وہ اس مقام کا دیدار کر لیں جہاں ہندو مانتے ہیں کہ ان کے بھگوان رام کا جنم ہوا تھا اور جہاں بابر کے ایک جرنیل نے سولہویں صدی میں ایک مسجد تعمیر کرا دی تھی۔
مسجد توڑنے کا خیال تو وییسے بھی کسے کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا کیونکہ متنازع اراضی کے مالکانہ حقوق کا مقدمہ پہلے سے ہی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ اس لیے انصاف تو کبھی نہ کبھی ملنا ہی تھا۔
لیکن یہ مذہبی رضاکار کس کی سنتے ہیں۔ ایک بار ٹھان لی کہ مسجد گرانی ہے تو پھر ان کے اپنے رہنما ہی کیوں نہ منتیں کر رہے ہوں، پھر سلمان خان کی طرح وہ خود اپنی بھی نہیں سنتے۔ اس کیس کی تفتیش بھی سی بی آئی نے ہی کی تھی۔

جو بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے خلاف تھے وہ سوچ رہے ہیں کہ ملزمان کو تو انصاف مل گیا، سزا کسے ملے گی؟ (فوٹو: اے ایف پی)

بات تھوڑی پرانی بھی ہوگئی ہے، اب 28 سال گزرنے کے بعد بے چارے افسر کہاں ثبوت جمع کرتے پھریں گے۔ ویسے بھی سپریم کورٹ نے ساری زمین مندر کی تعمیر کے لیے دے دی ہے اور کام شروع بھی ہوگیا ہے۔ اب ان باریکیوں میں پڑنے کا کیا فائدہ کہ مسجد توڑنے والے کون تھے اور وہ کسی سازش کے تحت توڑی گئی تھی یا بس یوں ہی کار سیوکوں کے دل میں آیا کہ چلو آج بہت بور ہو رہے ہیں، خالی بھی بیٹھے ہیں، یہ کام ہی نمٹا دیتے ہیں۔ اس لیے اس کہانی کو بس اب یہیں ختم کر دیا جائے تو اچھا ہوگا۔
سبھی ملزمان کو بری کیے جانے سے کیا پیغام جائے گا، یہ اپنے اپنے نظریے پر منحصر کرتا ہے۔ چھوٹنے والوں کو لگ رہا ہے کہ انہیں انصاف مل گیا، چھوڑنے والوں کو لگ رہا ہے کہ دیر تو لگی لیکن انجام کار انہوں نے انصاف کر ہی دیا، اور جو مسجد کی جگہ مندر بنانے کے خلاف تھے وہ سوچ رہے ہیں کہ ملزمان کو تو انصاف مل گیا، سزا کسے ملے گی؟
اگر لڑکی زندہ بچ جاتی تو شاید اس کے ذہن میں بھی یہ ہی سوال اٹھ رہا ہوتا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں