Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باس کا مُوڈ بہت آف ہے، کوئی اور بات کرو‘

باسز کو شکایت ہوتی ہے کہ ماتحتوں کی نااہلی کی وجہ سے افسران بالا سے ڈانٹ پڑ گئی (فوٹو: انسپلیش)
میرا بھانجا کافی دیر سے مضطرب دکھائی دے رہا تھا، عمر تو خیر سے ان کی محض سات سال ہے لیکن اپنے سوالات سے یہ کسی بھی پروفیسر سے کم نہیں دکھائی دیتے۔ ذہانت تو ماشا اللہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سوچا کہ محمد ہادی کے پاس جا کر دیکھنا چاہیے کہ یہ کیوں الجھن کا شکار ہیں۔ ہادی کے منہ بسورنے پر مجھے احساس ہوا کہ معاملہ واقعی سنجیدہ ہے تو پوچھ لیا کہ آخر ہوا کیا ہے؟
خیر ہادی صاحب نے کہا کہ خالہ جانی دیکھیں ناں یہ ایک میپ (نقشہ) ہے جسے میں مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اتنی دیر سے یہ نہیں ہو رہا۔ اف اب مجھے بہت غصہ آرہا ہے میں کیا کروں؟ میں نے اس سارے پزل کو دیکھنے کے بعد انہیں صرف ایک بات سمجھائی کہ پزل کے بیک سائیڈ پر دیکھو کوئی تصویر تو نہیں بنی ہوئی۔ جب ہم دونوں نے دیکھا تو وہاں ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ میں نے ہادی کو کہا کہ نقشے کو چھوڑو ہم آدمی پورا کرتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ دس منٹ میں پزل مکمل ہو گیا۔
اب ہادی صاحب تو خوش ہو گئے لیکن میرے سامنے ایک اور پزل آگیا کہ واقعی ایک آدمی کے ٹھیک کرنے سے نقشہ مکمل ہو گیا تو کیا ایک آدمی کے بھی درست ہونے سے ہمارا معاشرہ نہیں سدھر سکتا؟ یعنی انسان اگر خود کو ہی ٹھیک کر لے تو کیا پورا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
ہمارا مائنڈ سیٹ اب ایسا ہو چکا ہے کہ اب واقعی ہم دوسروں کی غلطیوں کے جج اور اپنے گناہوں کے بھی وکیل ہوتے ہیں۔

’اگر کوڑا پھینکنے پر جرمانہ ہو تو شہر کی صفائی ممکن ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت ہے تو وہ غلط، اپوزیشن ہے تو وہ کام نہیں کر رہی۔ سبزی والے نے گلی سڑی سبزی دے دی، دفتر میں باس نے ڈانٹ پلا دی۔ بازار گئے تو پرس چوری ہو گیا۔ یہ سب باتیں عجیب اس لیے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں پر نکتہ چینی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
اب چشم تصور سے چند واقعات کو دیکھیں تو نوشین سکول میں ٹیچر ہیں جنہیں اپنی شاگرد مہک سے یہ شکایت ہے کہ وہ نالائق ہے لیکن انھوں نے اس کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہ ذہنی طور پر تھوڑی پسماندہ ہے اور والدین کی شفقت سے بھی محروم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میڈم انہیں اضافی کلاسز میں پڑھائیں لیکن انھوں نے مہک کے چچا کو ٹیوشن کے بارے میں بتا دیا کہ انھیں ان کے گھر بچی کو لے کر آنا ہوگا۔
آج تو باس کا موڈ بہت آف ہے، یار کوئی اور بات کرو یہ تو روز کی کہانی ہے۔ یہ کہنا ہے فرید اور نوید صاحب کا جنہوں نے ایک ہفتہ پہلے دی گئی فائلز اور رپورٹس مکمل نہیں کیں۔ ان دونوں نے سارا وقت گپ شپ اور اسی طرح کی فضولیات میں گنوا دیا۔ فاروق صاحب ایک باس ہیں انھیں اپنے ماتحتوں سے شکایت ہے کہ ان کی بے پروائی کے باعث افسران بالا نے ان کی بےعزتی کی لیکن کیا فائنل پریزنٹیشن سے پہلے اپنے سٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ کر کے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتے تھے؟ لیکن ظاہر ہے کہ پھر انھیں باس کون کہے؟
راحیلہ آنٹی اپنی نوکرانی سے پریشان ہیں کہ وہ آئے روز چھٹی کر لیتی ہیں اور دنیا جہان کے بہانے کرتی پھرتی ہیں۔ اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آپ بھی تو نوکرانی پر گھر چھوڑ کر مارننگ شو دیکھنے میں مشغول ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے نوکرانی اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک ہی سمجھنے لگی ہیں۔ تو کیا اس سب میں آپ کی غلطی نہیں اور اگر ایک دن آپ برتن دھو کر رکھ لیں گی تو آپ کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اکثر گاہکوں کو شکایت رہتی ہے کہ دکاندار گلی سڑی سبزی دے دیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ہر طرف کتنے کاغذ ہیں، لوگ کتنا گند ڈالتے ہیں۔ یہ آواز مہرین کی ہے جبکہ یہی مہرین ڈرائیونگ کے دوران چپس اور دیگر اشیا کے پیکٹ کے ریپیرز کھول کر سڑک پر پھینک دیتی ہیں۔ بس ہمارا یہی طرز عمل ہے جو ہمیں خود پر تنقید کرنے کا موقع نہیں دیتا۔
جبکہ خود احتسابی کا عمل شروع کرنے سے آپ خود کو بالکل تازہ دم محسوس کریں گے جس طرح  پارک میں سرسبز پگ ڈنڈیوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے فرحت محسوس ہوتی ہے ۔ 

شیئر: