Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ عرب شہریوں کے لیے سفری پابندیاں نرم کرے‘

ہر پانچ میں سے دو عرب نوجوان نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سنہ 2011 میں عرب دنیا میں اٹھنے والی شورش کی لہر سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سیاسی غیر یقینی، معاشی مشکلات پیدا ہوئیں اور دوسرے مقامات پر تحفظ اور بہتر مواقع کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا۔
امریکہ، جو عرصہ دراز سے مواقع کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ تارکین وطن کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔
 عرب نیوز اور یوگوو پین عرب سروے میں جواب دینے والوں کا کہنا ہے کہ ’وہ آئندہ کے لیے ایسی امریکی انتظامیہ چاہتے ہیں جو عرب ممالک کے لوگوں کے لیے امریکہ کا سفر آسان بنائے۔‘

 

’لبنان کی نئی نسل کے زیادہ تر افراد آج اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہو، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا 36 سال قبل ہوا تھا اور میں نے ملک چھوڑا تھا، کوئی بھی شخص جو چھوڑ کر جا سکتا ہے، چلا جائے گا۔‘
یہ کہنا ہے لبنانی، فلسطینی فوٹوگرافر رانیہ ماتر کا، جو بوسٹن سے بیروت کے دورے پر آئی تھیں۔
’تاہم جب تک لبنانیوں اور عربوں کے پاس امریکی شہریت نہیں ہوتی وہ یکساں طور پر امریکہ میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ وہ یورپ یا کینیڈا جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور شاید یہ امریکہ کی سخت سفری پابندیاں ہی ہیں جنہوں نے بہت ساری عرب اقوام کو دور کر رکھا ہے۔‘
بے شک گزرے تین سال سے زائد عرصے کے دوران عرب ممالک کے لوگوں کے لیے امریکہ کا سفر مزید مشکل ہوا ہے، خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، جو تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے 2017 میں بہت سے مسلمان ممالک کے لوگوں کے سفر پر پابندیاں لگائیں۔
ایگزیکٹیو آرڈر 13769 نے عراق ، ایران ، لیبیا ، صومالیہ ، شام اور یمن کے شہریوں پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس حکم کو چیلنج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام غیر آئینی ہے اور اس نے وفاقی قوانین کو توڑا ہے۔

لبنان میں چار اگست کو صورت حال اس وقت تباہ کن ہو گئی جب بندرگاہ کے گودام میں آگ لگی (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے نتیجے میں ٹرمپ نے ایگزیکٹیو آرڈر 13780 جاری کیا جس نے پہلے والے آرڈر میں کچھ تبدیلیاں کیں جن میں عراق کو فہرست سے نکالنا بھی شامل تھا۔
’بالکل، ان کو پابندیوں میں نرمی کرنا چاہیے خصوصاً نوجوان نسل کے لیے، کیونکہ ان کے پاس دنیا کے اس حصے میں کوئی موقع نہیں ہے۔‘
یہ بات بیروت میں رہائش پذیر تاجر بیسل ڈیلول نے عرب نیوز کو بتائی۔
’امریکہ اب بھی دنیا کے اس حصے میں رہنے والوں کے لیے مواقع کی سرزمین ہے، اگر آپ سخت محنت کرتے ہیں توآپ کامیاب ہوں گے اور امریکہ میں رہنے والوں کے لیے اس کا مطلب یہی ہے۔‘
سروے میں شامل اٹھارہ ممالک کے 75 فیصد جواب دینے والے افراد نے اس امر پر اتفاق کا اظہار کیا کہ امریکہ کو عربوں کو امریکہ جانے کا طریقہ آسان بنانا چاہیے جبکہ لبنان کے اعدادوشمار اس سے بھی زیادہ یعنی 79 فیصد ہیں۔
ڈیلول نے کہا کہ ’لبنانی لبنان چھوڑ رہے ہیں، جو بھی جانے کی استطاعت رکھتا ہے، جا رہا ہے، یہاں پر بینکنگ کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔‘

سروے میں اکثریت نے عربوں کے امریکہ جانے کے طریقہ کار کو آسان بنانے کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آپ ہفتے میں دو ملین لبنانی پاؤنڈز (بلیک مارکیٹ کی شرح کے مطابق 270 ڈالر) تک لے سکتے ہیں، ایک خاندان اس میں کیسے گزارا کر سکتا ہے جب اس نے کرایہ ادا کرنا ہو، کھانے بجلی اور تعلیم کا انتظام بھی کرنا ہو۔‘
لبنان اکتوبر 2019 میں اس وقت شدید احتجاج کی لپیٹ میں آیا جب نئے ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، جلد ہی احتجاج میں سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید غصہ بھی شامل ہوا۔
صورت حال چار اگست کو اس وقت تباہ کن ہو گئی جب بندرگاہ میں امونیئم نائٹریٹ کے گودام میں آگ لگی اور ایک خوفناک دھماکے نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں 302 افراد ہلاک اور 6500 زخمی ہوئے۔
اس بحران سے لبنانی حکام کی نااہلی اور بدعنوانی کی طرف بھی اشارہ ملا اور عوام کے غیض و غضب میں اضافہ ہوا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے بننے والی صورت حال نے پہلے ہی ملازمتوں کے مواقع کم کر دیے ہیں۔
اس سال کے عرب یوتھ سروے کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے بگڑتی معیشت، تنازعات اور بدعنوانی کی وجہ سے ہر پانچ میں سے دو عرب نوجوان نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں