Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عشق کی فکر کریں یا گاجر کی؟

انڈیا میں ایسی مسلم اور ہندو کی آپس میں شادی کو ’لو جہاد‘ کہا جاتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
اگر مغلوں کی حکومت ابھی باقی ہوتی اور اکبراعظم جیسا طاقتور بادشاہ آپ کو آگرہ میں کچہری کے باہر کھڑا نظر آتا تو آپ فوراً طنزیہ کہتے کہ امیر ہو یا غریب، راجہ ہو یا رنک، محبت کسی کو نہیں بخشتی، سب کو ایک ہی صف میں لاکر کھڑا کر دیتی ہے، دیکھیے کہ مہارانی جودھا بائی سے شادی کرنے کے لیے کتنا بڑا بادشاہ لائن میں کھڑا ہوکر حلف نامہ تیار کرا رہا ہے، ان ہندو مسلم شادیوں سے تو دور رہنا ہی بہتر ہے۔
ہاں ہمیں بھی معلوم ہے کہ اس زمانے میں زیادہ تر لوگ شادی کے بعد ہی محبت کرتے تھے، پہلے نہیں۔ اور راجہ مہاراجاؤں کی شادیاں اکثر حکومتوں کو مستحکم کرنے اور رنجشوں کو رشتے داری میں بدلنے کے لیے بھی ہوتی تھیں۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔
آج کل کے زمانے میں محبت کرنی ہے، اور اس کے بعد شادی بھی، وہ بھی ہندو لڑکی سے، تو ہمارا مشورہ تو یہ ہی ہوگا کہ آپ پہلے قانون کی ڈگری حاصل کرلیں، شادی کے بعد زندگی رہی تو وقت بھی بچے گا اور خرچہ بھی کیونکہ پھر زیادہ تر ٹائم کورٹ کچہری کے چکر لگانے میں ہی گزرنا ہے۔
یا دوسرا آپشن یہ ہے کہ شادی ہی نہ کریں۔ اگر آپکا ضمیر گوارا کرتا ہو تو انڈیا میں قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ دو بالغ اپنی مرضی سے ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہے، چاہے لڑکا مسلمان ہو اور لڑکی ہندو۔ وہ دوست ہوسکتے ہیں، عاشق بھی، لو ان پارٹنر بھی، لیکن جہاں شادی کرنے کی سوچی تو بس قیامت پرپا ہو جاتی ہے۔
ہندو مسلمان کی شادی صرف عدالت میں ہوسکتی ہے (کورٹ میرج) اور اس کے لیے لمبی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ کورٹ کے باہر شادی کا نوٹس چسپاں کیا جاتا ہے، ماں باپ کو اطلاع بھیجی جاتی ہے۔۔۔ اور اگرآپ اس سب سے بچنا چاہتے ہوں تو ایک ہی راستہ ہے، دونوں میں سے ایک اپنا مذہب تبدیل کر لے، لیکن آپ بھلے ہی مذہب پر زیادہ عمل نہ کرتے ہوں، پھر بھی یہ کام آسان نہیں ہے۔

انڈیا نے ہندو مسلم شادی روکنے کے لیے سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اسی ہفتے شمالی ہندوستان کی دو ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس طرح کی شادیوں کے خلاف قانون وضع کرنے پر غور کر رہی ہیں جن میں لڑکا مسلمان ہو اور لڑکی ہندو۔ انڈیا میں ایسی شادیوں کو ’لو جہاد‘ کہا جاتا ہے۔
اتر پردیش کے وزیراعلی آدتیہ ناتھ کا دعویٰ ہے کہ ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے ان کی حکومت سخت قانون بنائے گی اور جو لوگ ’ہماری بہو بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کریں گے وہ اپنے آخری سفر کے لیے تیار رہیں۔‘
اور ہم سمجھتے رہے کہ محبت کو آگ کے دریا سے منسوب کرنے اور، ڈوب کے جانے کی بات بس یوں ہی یہ سمجھانے کے لیے کہی گئی تھی کہ یار عشق کو آسان مت سمجھنا اس میں آزمائشیں بہت ہیں۔
مذہب کے باہر شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اپنی شناخت چھپا کر شادی کرنا ظاہر ہے کہ دھوکے بازی کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس پر بھی کوئی عدالت موت کی سزا نہیں سنا سکتی۔ تو پھر وزیراعلیٰ ہی بہتر جانیں کہ جب قانون میں سزائے موت کی گنجائش ہی نہیں ہے تو جنازہ کیوں نکلے گا اور سزا کون دے گا؟
وزیر اعلیٰ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے تناظر میں یہ بات کہی تھی۔ عدالت سے ایک لڑکی نے حفاظت کی درخواست کی تھی۔ وہ پہلے مسلمان تھی لیکن ہندو مذہب اختیار کرنے کے بعد اس نے ایک ہندو لڑکے سے شادی کر لی تھی جس کے بعد اسے خود اس کے اپنے گھروالے پریشان کر رہے تھے۔

ہندو لڑکی سے شادی پر طویل قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

عدالتوں کے پاس بھی آجکل شاید کام کم ہی ہوتا ہے اس لیے جج صاحب نے کہا کہ صرف شادی کرنے کے لیے مذہب تبدیل کرنا غلط ہے۔ بھائی آپ سے لڑکی سکیورٹی مانگ رہی ہے، اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، آپ اس کے مذہب کا امتحان کیوں لے رہے ہیں؟ وہ کیوں کسی عدالت میں کلمہ یا گایتری منتر سنائے۔ آپ کو صرف پولیس کو یہ ہدایت دینی تھی کہ کوئی ان کی شادی شدہ زندگی میں مداخلت نہ کرے، وہ آپ نے دی نہیں۔
یہ فیصلہ کون کرے گا کہ مذہب تبدیل کرنے والا شخص اپنے نئے مذہب پر پوری سنجیدگی سے عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ یہ شرط تو پہلے ان لوگوں پر نافذ ہونی چاہیے جو پہلے سے ہندو یا مسلمان ہیں۔ نئے آنے والوں کو تو وقت لگتا ہی ہے۔
ہریانہ کی حکومت بھی اسی طرح کا قانون بنانے کی تیاری میں ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جو غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے لیے بدنام ہے۔ وہاں لڑکیوں کی آواز ویسے ہی مشکل سے سنی جاتی ہے اور جب سیاستدان حکمرانی پر توجہ دینے کے بجائے پیار محبت اور شادیوں کی باریکیوں میں الجھنے لگتے ہیں، اور پسند کی شادیوں کو غیرت اور عزت سے منسوب کرنے لگتے ہیں، تو خاص طور پر لڑکیوں کےلیے راستہ اور تنگ ہو جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے یو پی اور ہریانہ کی حکومتیں میرج بیورو چلا رہی ہوں، کس سے شادی کر سکتے ہیں اور کس سے نہیں، یہ فیصلہ لڑکے لڑکی پر ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ سکتا ہے کہ حکمرانی کے لیے بھی کچھ وقت بچ جائے۔
تو ہونا کیا چاہیے؟ دنیا بدل رہی ہے۔ لیکن اس رفتار سے نہیں جیسے ٹی وی پر نظرآتا ہے۔ بیس تیس سال پہلے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کا سکول جانا آسان کام نہیں تھا۔ اب سکول کالجوں میں اور اس کے بعد نوکریوں میں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ نہ لڑکیوں کو اب گھر میں روکا جاسکتا ہے اور نہ ان کی زندگیوں کو اس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے جیسے پہلے کیا جاتا تھا، وہ پڑھیں گی، ان میں اعتماد آئے گا، اور پھر وہ عنقریب اپنی زندگی کے اگر سب نہیں تو کچھ فیصلے خود کریں گی۔

انڈیا کی شمالی ریاستیں ہندو مسلم شادی کے خلاف قانون وضع کریں گی۔ فوٹو اے ایف پی

یہ فیصلے کبھی ہمیں پسند آئیں گے اور کبھی نہیں۔ کبھی وہ مذہب کے لیے محبت قربان کریں گی اور کبھی محبت کے لیے مذہب۔ وہ ہندو بھی ہوں گی اور مسلمان بھی۔ ان میں سے کچھ فیصلے غلط بھی ثابت ہوں گے لیکن طلاق ان شادیوں میں بھی ہوتی ہیں جو ماں باپ کراتے ہیں۔
اس لیے سر، نوجوانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ لو جہاد کے پیچھے ایک سازش ضرور ہے لیکن اس میں نوجوانوں کا ہاتھ نہیں ہے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
اور ہاں، اگر آپ تک خبر نہ پہنچی ہو، گاجر سو روپیے کلو بک رہی ہے۔
منگل کو راولپنڈی میں کھیلے جا رہے اس میچ میں پاکستان کے خلاف زمبابوے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو اس کے ابتدائی دو کھلاڑی صرف چار رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔
زمبابوے کے اوپنر چامو چیبھابھا بغیر کوئی رنز بنائے پہلے ہی اوور میں محمد حسنین کی گیند پر افتخار احمد کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔

شیئر: