Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بائیڈن مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندی ہٹا سکتے ہیں؟

بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے پہلے روز ہی 13 ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندیاں اٹھا ئیں گے (فوٹو: اے ایف پی)
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے پہلے روز ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے 13 ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر لگائی جانے والی پابندیاں اٹھا لیں گے۔ ان 13 ممالک میں زیادہ تر مسلمان اکثریتی آبادی والے ممالک شامل ہیں۔  
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں بعد ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے سات مسلمان ملکوں کے باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔
بعد ازاں چند نئے احکامات کے ذریعے پابندی کا شکار ہونے والے ممالک کی تعداد 13 کر دی گئی اور حتمی فہرست میں ایران، شام، یمن، صومالیہ، لیبیا، سوڈان، کرغزستان، نائجیریا، تنزانیہ، میانمار، وینزویلا، اریٹیریا اور شمالی کوریا کو شامل کیا گیا۔
 
اس پابندی کے نفاذ کے وقت امریکہ اور اس سے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا گیا تاہم کئی سفید فام حلقوں کی جانب سے اس کو سراہا بھی گیا۔
جو بائیڈن کی طرف سے ان پابندیوں کے خاتمے کے اعلان کے بعد جہاں ایک طرف مسلمان دنیا میں نئی امریکی حکومت سے متعلق مختلف تاثر ابھرنے کا امکان ہے وہیں امریکہ اور یورپ میں اس اقدام کی مخالفت بھی ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور امریکی سیاسیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جو بائیڈن نے یہ پابندیاں اٹھا بھی لیں تو وہ کچھ ایسے اقدامات ضرور کریں گے جن کی بدولت مخصوص ملکوں کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلے کے مواقع محدود رہیں۔
سینیئر تجزیہ کار اور سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت لگائی تھی اور جو بائیڈن کو اس کو ختم کرنے کے لیے محض ایک اور صدارتی حکم نامہ جاری کرنا ہے جس کے بعد ٹرمپ کے یہ احکامات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔  

راجا قیصر کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے اس اقدام کا ردعمل ملا جلا آئے گا جیسا کہ یہ پابندیاں لگاتے وقت آیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

’اس اقدام سے ایک غلط قدم کو درست کیا جائے گا کیونکہ یہ پابندی امریکی آئین جو نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو منع کرتا ہے کی خلاف ورزی تھی۔ اس کو ختم کرنے کے لیے محض سیاسی قوت ارادی درکار ہے۔‘  مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ اس پابندی کے خاتمے سے مغربی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم متاثرہ مسلم ممالک اس کو خوش آمدید کہیں گے۔ 
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ری پبلکن رائٹ ونگ کے لیے ایک موقع ہو گا کہ وہ جو بائیڈن انتظامیہ پر اعتراضات کر سکیں۔  ’مجموعی طور پر یہ امریکہ کے تاثر اور مقام میں اضافہ کرے گا۔‘ 
’یہ ضروری طور پر مسلمانوں کے حق میں قدم نہیں ہو گا لیکن یہ واضح کرے گا کہ جو بائیڈن کی اقدار اور دنیا کے بارے میں تاثر ٹرمپ کے الٹ ہیں۔ یہ ایک سراہے جانے والی پیش رفت ہے کیونکہ اس سے امریکہ کی کثیر النسلی اور کثیر المذہبی حقیقت واضح ہوتی ہے۔‘  

’برے لڑکے‘ کے تاثر کا خاتمہ

قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد راجہ قیصر کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے ایسے اعلانات کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو ’اَن ڈو‘ کرنے کا پیغام دینا ہے لیکن اس حوالے امریکہ کی بنیادی حکمت عملی میں شاید کوئی بڑا بدلاؤ نہ آئے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسے اقدامات سے بائیڈن کو مسلمانوں کا ہمدرد جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ان کے اس اقدام کا مقصد مسلمانوں کی ہمدردی سے کہیں زیادہ امریکہ کے لبرل ازم کے تصور کو دنیا میں پھر سے ابھارنا ہے۔ نسلی تعصب کا بذات خود امریکہ کی سوسائٹی اور سوشل فیبرک کو نقصان پہنچا ہے۔ لہٰذا اس جیسے کئی اور فیصلے بھی متوقع ہو سکتے ہیں۔‘  

ٹرمپ کی جانب سے لگائی گئی  پابندی کے نفاذ کے وقت امریکہ اور اس سے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

راجہ قیصر کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چار سال میں امریکہ کا عالمی کردار بہت کمپرومائز ہوا ہے۔ بائیڈن امریکہ کا اچھا تاثر بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ امریکی صدر (ٹرمپ)  کا ’برے لڑکے‘ جیسا تاثر ختم کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے وہ داخلے پر پابندی اٹھانے جیسے اقدامات کرنے پر زور دیں گے۔‘
راجہ قیصر کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے اس اقدام کا رد عمل ملا جلا آئے گا جیسا کہ یہ پابندیاں لگاتے وقت آیا تھا، لیکن یہ قدم ثابت کر دے گا کہ امریکہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔

بائیڈن کے متوقع اقدامات: امریکہ میں داخلہ مشکل یا آسان

بین الاقوامی قانون کے ماہر اور بالخصوص امریکی سیاست کا بغور مشاہدہ کرنے والے حزیمہ صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے لیے یہ اقدام اٹھانا انتظامی حوالے سے مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے انہیں صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ٹرمپ کی پالیسی کو ریورس کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ساتھ ہی ایسے اقدامات کریں گے اور اتنی شرائط عائد کر دیں گے جن کی وجہ سے امریکہ میں داخلہ عملی طور پر انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ ان کے اس اعلان سے یہ امید نہیں لگانی چاہیے کہ وہ مسلمان ملکوں کے ساتھ پسندیدگی کا رویہ رکھیں گے۔ کیونکہ ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ اسرائیل اور بھارت کے حمایتی ہیں۔‘
حزیمہ صدیقی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ’ویسے بھی یہ واضح پابندی اگرچہ ٹرمپ نے لگائی تھی اور وہ اس بارے میں انہوں نے کافی زیادہ بیان بازی کی تھی لیکن در حقیقت اس میں زیادہ رکاوٹیں براک اوباما کے دور میں لگائی گئی تھیں جب جو بائیڈن نائب صدر تھے۔ انہی کے دور میں شام اور لیبیا پر بمباری کی گئی اور پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے کیے گئے۔ اس لیے ان کی پچھلی حکومت اور اس دور کی پالیسیوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہو گا۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں