Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک پاکستانی: دو سو مرد ورکرز کے مقابلے میں صرف ایک خاتون

بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں پاکستان سے مجموعی طور پر 12 لاکھ ورکرز بیرون ملک گئے (فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان میں چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔
ملک کے اندر تو مرد اور خواتین کی ملازمتوں کے تناسب میں کافی فرق ہے ہی لیکن بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے دو سو پاکستانی مردوں کے مقابلے میں صرف ایک خاتون ورکر جا رہی ہے۔
پاکستان کی وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے 86 ممالک میں پاکستانی ورکرز کی تعداد 80 لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔ تاہم ملکی آبادی کے تناسب کے برعکس ان ورکرز میں خواتین ورکرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
 
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں پاکستان سے مجموعی طور پر 12 لاکھ ورکرز بیرون ملک گئے۔ جن میں سے خواتین کی کل تعداد 6 ہزار 67 ہے۔ جو کل تعداد کے اعشاریہ 50 فیصد ہیں۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کے مطابق زیادہ تر خواتین ورکرز ڈاکٹرز، نرسز،  پیشہ وارانہ مہارت  کی بنیاد پر یا گھریلو ملازمہ یعنی آیا وغیرہ بن کر ہی جاتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک ملازمت کے سلسلے میں جانے والی خواتین میں سے 38 فیصد اعلی تعلیم یافتہ، دو فیصد اعلی ہنر مند، آٹھ فیصد نیم ہنرمند 19 فیصد ہنر مند، 32 فیصد غیر ہنر مند شامل ہیں۔
بیرون ملک جانے والی خواتین ورکرز میں سے 18 فیصد ہاؤس میڈ، 15 فیصد جنرل وکررز، 11 فیصد مینیجرز، 10 فیصد ڈاکٹرز، آٹھ فیصد آفس سٹاف، چھ فیصد نرسز، پانچ فیصد ٹیچرز اور کم و بیش 20 فیصد خواتین دیگر شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
بیرون ملک بحیثیت ورکر جانے والی خواتین میں سب سے زیادہ  56 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ باقی میں سے 33 فیصد سندھ، پانچ فیصد اسلام آباد، چار فیصد خیبر پختونخوا اور ایک ایک فیصد کا تعلق گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔

 وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بیرون پاکستانی ورکرز کی تعداد 80 لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔ (فوٹو : اے ایف پی)

بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال رواں سال میں اب تک ایک ہزار 410 ، 2019 میں 4 ہزار 79 اور سال 2018 کے صرف چار ماہ کا ڈیٹا دستیاب ہے جس مطابق 578 خواتین ورکرز بیرون گئیں۔
سب سے زیادہ پاکستانی خواتین سعودی عرب، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات جبکہ تیسرے نمبر پر برطانیہ کا رخ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ عمان، بحرین، قطر، کینیڈا، چین، امریکہ اور ملائیشیا میں بھی پاکستانی خواتین ورکرز موجود ہیں۔
وزارت سمندر پاکستانیز کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ہم نہ صرف بیرون ملک ورکرز کی تعداد میں کمی سے آگاہ ہیں بلکہ وزارت اور بالخصوص بیورو آف امیگریشن میں اس حوالے سے خاصی تشویش بھی پائی جاتی ہے۔‘
حکام کے مطابق ’خواتین ورکرز کے بیرون ملک جانے کے رجحان میں کمی کی سب سے بڑی وجہ مقامی سماجی اور ثقافتی مسائل ہیں جو انھیں بیرون ملک ملازمت کے حصول کے لیے فیصلہ کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘ وزارت انسانی حقوق نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خالصتاً عورتوں کے لیے بیرون ملک ملازمتوں کے مواقع تلاش کرنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے بات چیت کرے گی۔'

  بیرون ملک جانے والی خواتین میں سے 70 فیصد براہ راست ملازمت حاصل کرکے بیرون ملک گئی ہیں (فوٹو : اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ 'ان ملکوں سے بات چیت کرکے پاکستانی خواتین ورکرز کے لیے آن لائن جاب پورٹل قائم کیے جائیں گے جس سے انھیں نہ صرف احساس تحفظ ملے گا بلکہ بحیثیت ورکرز ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی یقینی ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ اس وقت بیرون ملک جانے والی خواتین میں سے 70 فیصد براہ راست ملازمت حاصل کرکے بیرون ملک گئی ہیں جبکہ 30 فیصد نے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے نوکری حاصل کی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: