Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بندرگاہِ ’ینبع‘ کا نام کیسے پڑا؟ 

ینبُع کو یہ نام یہاں موجود تاریخی اہمیت کے حامل چشمے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں 
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو 
الفاظ و آہنگ بتا رہے ہیں کہ شعرعلامہ اقبال کا ہے۔ شعرمیں سالک و صوفی کے معاملات زیربحث ہیں، ہم اس معاملے میں نہیں پڑتے، حسب سابق لفظوں کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ شعر میں ہماری دلچسپی لفظ سبوچہ، غنیمت، خانقاہ اور کدو سے ہے۔   
’سَبُو‘ فارسی میں بڑے کوزے کو کہتے ہیں، جو آب نوشی سے زیادہ مے نوشی سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اردو مترادفات میں ’گھڑا، مٹکا اور پیالہ‘ شامل ہیں۔  
فارسی میں کسی اسم کی تصغیر بنانی ہو تو اُس اسم کے بعد ’چہ‘ کا اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسا کتاب سے کتابچہ، درسے دریچہ اور باغ سے باغچہ وغیرہ۔ ایسے ہی ’سبو‘ سے ’سبوچہ‘ ہے جس کا مطلب چھوٹا کوزہ یا پیالہ ہے۔ 
عام طور’باغچہ‘ کو ’باغیچہ‘ لکھا جاتا ہے جو درست نہیں کہ ’باغیچہ‘ لکھیں تو یہ ’باغ‘ کے بجائے ’باغی‘ کی تصغیر بنتی ہے یوں اس کا مطلب ’باغی بچہ‘ یا ’چھوٹا‘ باغی ہوجاتے ہیں۔ 
اس سلسلے کا ایک لفظ ’غالیچہ‘ ہے، جسے’قالیچہ‘ بھی لکھتے ہیں۔ یہ ’قالین‘ کا اسمِ تصغیر ہے جس کے معنی’چھوٹا قالین‘ہیں۔ اسے انگریزی میں ’rug‘ کہہ سکتے ہیں۔ 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’غالیچہ‘ اور ’قالیچہ‘ میں کیا فرق ہے؟ 
اس فرق سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ فارسی میں ’ق‘ کا تلفظ ’غ‘ کیا جاتا ہے۔ مثلاً وہ ’آقا‘ کو’آغا‘ پکارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’قالین‘ کو’غالین‘ کہتے اور اس کی تصغیر’غالیچہ‘ کرتے ہیں۔ 
اردو نے ’آغا‘ اور’آقا‘ دونوں لفظوں کو تو قبول کرلیا مگر’قالیچہ‘ اور’غالیچہ‘ میں سے اول الذکر لفظ کو رد کردیا۔ نتیجتاً عام آدمی ’کنفیوژ‘ ہوجاتا ہے کہ جب ’کتاب‘ سے کتابچہ ہے تو ’قالین‘ سے ’غالیچہ‘ کیسے ہوگیا؟  
اب اس’غالیچہ‘ کی رعایت سے اردو کے معروف ادیب جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند کی نظم ’نورجہاں کا مزار‘ سے ایک شعر ملاحظہ کریں: 
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے 
غالیچہ سرِفرش ہے کوئی نہ دری ہے 
کسی بھی نو کی پیداوار یا ایجاد کا کسی شخص، شہر یا ملک سے منسوب ہوکر مشہور ہوجانا سامنے کی بات ہے جیسے فلسطینی علاقے’عسقلان‘ کی پیاز یورپ میں سکیلین (Scallion) ہوئی۔ مغل فرماروا اکبرشاہ ثانی کے بیٹے میرزاسلیم کی نسبت سے’سلیم شاہی جوتا‘ چل پڑا اور جرمن شہر ’کولون/Cologne‘ کے تعلق سے ’Eau de Cologne‘ کی خوشبو جہاں بھر میں پھیل گئی۔ 

’سَبُو‘ فارسی میں بڑے کوزے کو کہتے ہیں۔ اس کے اردو مترادفات میں ’گھڑا، مٹکا اور پیالہ‘ شامل ہیں۔ فوٹو: ان سپلیش

ایسی ہی کہانی ’قالین‘ کی بھی ہے۔ قالین کی نسبت کاکیشیا (قفقاز) کے شہر’قلیقلا‘ کی طرف ہے۔ اس اونی دبیزفرش کواول ’قلیقلا‘ کی نسبت سے ’فرش قالی‘ کہا گیا۔ پھر جس طرح سنگ سے سنگین، رنگ سے رنگین، غم سے غمگین ہے ایسے ہی ’قالی‘ بھی ’قالین‘ ہوگیا۔ 
اب آجائیں ’غنیمت‘ پر کہ جس کے بارے میں پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’غنیمت‘ کو ’غنم‘ سے نسبت ہے۔ عربی میں بھیڑ بکریوں کو ’غنم‘ کہتے ہیں۔ سادگی سے بھر پور زندگی میں صحرا نشینوں کی کل دولت یہی ’غنم‘ تھے، جسے فتح کی صورت میں دشمن لوٹ لے جاتا تھا۔ بعد میں اسے ’غنم‘ کی نسبت سے ’غنیم‘ کا تصور پیدا ہوا جو دشمن کو کہتے ہیں۔ اب غنیم کی رعایت سے احمد فراز کا ایک شعرملاحظہ کریں:
غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی 
کہ ہار مان لی لیکن مدد نہیں مانگی 
اب لفظ ’خانقاہ‘ کی بات ہوجائے۔’خانقاہ‘ فارسی لفظ ’خانگاہ‘ کی معرب صورت ہے۔ ایک رائے کہ مطابق ’خان گاہ‘ اصلاً ’خانہ گاہ‘ تھا جو جُزی تبدیلی کے بعد ’خان گاہ‘ ہوا اور عربی میں پہنچ کر ’خانقاہ‘ ہوگیا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہوا مگر اس رائے کو دل قبول نہیں کرتا۔ 

جرمن شہر ’کولون/Cologne‘ کے تعلق سے ’Eau de Cologne‘ کی خوشبو جہاں بھر میں پھیل گئی۔ فوٹو: ان سپلیش

ایک دوسرے نقطۂ نظرکے مطابق ’خانقاہ‘ کی اصل ’خوان گاہ‘ ہے جو ’واؤ‘ حذف ہونے پر پہلے ’خان گاہ‘ اور پھر’گاف‘ کے ’قاف‘ سے بدلنے پر ’خان قاہ‘ ہوگیا۔ 
’خان گاہ‘ اول بادشاہ کی ’طعام گاہ‘ کے لیے مستعمل تھا جو بعد میں درویشوں اور صوفیوں کے مسکن کے معنی میں بولا جانے لگا۔ 
اب ’کدو‘ کا بیان ہوجائے۔ مے اور میخانہ سے متعلق الفاظ میں ساقی، پیمانہ، ساغر، سبو وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک لفظ ’کدو‘ بھی ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ عربی کا ’کدو‘ وہی سبزی ہے جسے ہم اردو میں ’کدّو‘ کہتے ہیں۔ 
زمانہ قدیم ہی سے ’کدو‘ کی قبیل کی سبزیوں کو خشک کرکے انہیں بطوربرتن استعمال کیا جاتا رہا ہے یہ برتن صوفیوں اور سادھوں کی کل کائنات شمار ہوتے تھے جنہیں وہ سینے سے لگائے نگری نگری محبت کا درس دیتے تھے۔ محبت کے ذکر سے امین کنجاہی یاد آگئے جو کہہ گئے ہیں: 
محبت ایسا چشمہ ہے 
جو سوکھا ہی نہیں کرتا 

’چشمہ‘ کو ’چشم‘ سے نسبت ہے۔ ’چشم‘ فارسی میں آنکھ کو کہتے ہیں، چوں کہ آنکھ سے پانی جاری ہوتا ہے لہٰذا اس رعایت سے زمین سے پھوٹ بہنے والے پانی کے سوتے کو بھی ’چشمہ‘ کہتے ہیں۔  
ایک ’چشمہ‘ آنکھوں کا بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بھی ’چشم‘ ہی متعلق ہے۔ 
چشم یعنی آنکھ کو عربی میں ’عین‘ کہتے ہیں پھر اسی نسبت سے ’پانی کا چشمہ‘ بھی ’عین‘ کہلاتا ہے۔ ’عین الجاریہ‘ یعنی ’بہتے چشمے‘ کی ترکیب عربی کی رعایت سے اردو میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ 
عربی میں ’پانی کے چشمے‘ کو ’عین‘ کے علاوہ ’مَنْبَع‘ بھی کہتے ہیں، اسی ’مَنْبَعُ‘ سے لفظ ’ینبوع‘ بھی ہے یہ بھی ’چشمے‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس ’ینبوع‘(ینبُع) کے ذہن میں رکھیں اور سعودیہ عرب کی تاریخی بندرگاہ اور 20 بڑے شہروں میں سے ایک ’ینبوع‘ (ینبُع) کے نام پر غور کریں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ اس شہر کو یہ نام یہاں موجود تاریخی اہمیت کے حامل چشمے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ 

شیئر: