Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برصغیر کے حاجیوں کا قرنطینہ ’جزیرہ کمران‘

جزیرہ کمران میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
نئے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے قرنطینہ کا نام ہرایک کی زبان پر ہے لیکن قرنطینہ کا تصور نیا نہیں کافی پرانا ہے- اگر بات حج و عمرہ زائرین کے حوالے سے ہو تو برصغیر سے سمندر کے راستے حج پر آنے والے زائرین کے لیے ’جزیرہ کمران‘ کو قرنطینہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا-
 عرب میڈیا کے مطابق یہ جزیرہ  100 مربع کلو میٹرپر مشتمل ہے- عربی زبان میں اس کا نام (کمران) ہے-  جزیرے کا یہ نام اس وجہ سے پڑا کیونکہ اس جزیرے کا پانی انتہائی شفاف ہے اور وہاں چاند کا عکس اس طرح سے پڑتا ہے جیسے گویا ایک نہیں دو چاند ہیں- یہ جزیرہ مونگوں کے جنگل سے مالا مال ہے-

جزیرہ کمران کو بحیرہ احمر کے جزیروں کا موتی کہا جاتا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

جزیرے کا درجہ حرارت  29 سینٹی گریڈ ہے یہاں بارشیں بے حد کم ہوتی ہیں-
جزیرہ کمران میں 19 ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کا راج تھا- اسی زمانے میں جزیرے کو بیت اللہ کو جانے والے زائرین کے لیے قرنطینہ بنایا گیا تھا- سلطنت عثمانیہ سے قبل پرتگالی اس پر قبضہ کیے ہوئے تھے- انہوں نے 16 ویں صدی عیسوی سے لے کر 19 ویں صدی عیسوی تک اس پر راج کیا۔

جزیرے کا پانی انتہائی شفاف ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915 میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا تھا- 1923 میں لوزان معاہدے کے تحت جزیرے سے سلطنت عثمانیہ کے راج کا خاتمہ کردیا گیا تھا تاہم برطانیہ نے عدن کی حکومت کی مرضی کے برخلاف اس پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھا-
کمران یمنی جزیرہ ہے اور الحدیدہ صوبے کے ماتحت ہے-  اسے بحیرہ احمر کے جزیروں کا موتی کہا جاتا ہے-
1923 کے دوران لوزان معاہدے کے تحت برطانیہ نے تسلیم کیا تھا کہ یہ جزیرہ حاجیوں کے قرنطینہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے-  برطانیہ نے فرانس، اٹلی اور ہالینڈ کے ساتھ معاہدے میں بھی 1938 تک اس جزیرے کی اس حیثیت کو تسلیم کیا ہوا ہے، تاہم  1949 میں برطانیہ نے اسے ایک طرح سے اپنی نو آبادیات میں شامل کرلیا تھا- برطانیہ کا یہ فیصلہ غیر قانونی تھا-
 خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: