Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور جلسہ: حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

پی ڈی ایم حکومت مخالف جلسے گجرانوالہ، کوئٹہ اور کراچی میں منعقد کر چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے بیشتر اداروں میں سنیچر اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے تو سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں اسی دن رکھتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام ان میں شرکت کر سکیں۔
گذشتہ ہفتے تک پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن میں جلسوں کا مقابلہ چل رہا تھا۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی رہنما اپنے اپنے جلسوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے ایک دوسرے سے بڑا جلسہ کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔
کورونا کی دوسری لہر نے زور پکڑا تو این سی او سی کی تجویز پر وزیراعظم نے اپنے جلسے منسوخ کرتے ہوئے ملک بھر میں جلسوں پر پابندی کا اعلان کر دیا۔  لیکن پابندی کے باوجود حکومتی تقاریب اور کئی ایک دیگر اجتماعات بھی ہو رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے صرف پشاور میں ہونے والے جلسے کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔
ہفتے کے دن کوئی سیاسی اجتماع نہیں ہو رہا تو وہ مقابلہ جو جلسہ گاہوں میں ہو رہا تھا اب سوشل میڈیا اور اس کے ردعمل میں آنے والے بیانات کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
پی ڈی ایم کے پشاور جلسے سے پہلے ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میدان سج چکا ہے۔
دن کا آغاز وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے پے در پے ٹویٹس سے ہوا۔ جس میں پہلے تو انھوں نے پشاور میں کورونا کی صورت حال، سندھ اور کشمیر میں کورونا کے خلاف حکومتوں کے اقدامات اور پھر پشاور میں جلسے پر بضد اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اسد عمر نے اپنے ٹویٹس میں لکھا کہ ’گزشتہ روز پشاور میں کورونا کے کیسز پازیٹو آنے کی شرح 13.39 فیصد رہی۔ 202 مریض تشویش ناک حالت میں ہیں جن میں سے 50 کو کم، 138 کو زائد مقدار میں آکسیجن لگائی گئی ہے جبکہ 18 وینٹی لیٹر پر ہیں۔ صرف کل کے دن 14 نئے کیسز تشویش ناک حالت میں آئے جبکہ پی ڈی ایم کہتی ہے کہ وہ سٹیج پر کورونا سے محفوظ رہیں گے عوام کی کسے پرواہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مسلم لیگ نواز کی حکومت نے آزاد کشمیر میں دو ہفتوں کے لیے مکمل لوک ڈاؤن کا اعلان کر دیا. پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی کے چار اضلاع میں سمارٹ لاک ڈاؤن کر دیا۔ لیکن دونوں جماعتوں کا اصرار ہے کہ پشاور جلسہ ضرور ہو گا۔ دوغلے پن کی اس سے واضح مثال نہیں مل سکتی۔‘
ان کے ٹویٹ کو کوٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’پی ڈی ایم کے وہ اراکین جو پہلے سخت ترین بندشیں چاہتے تھے اور مجھ پر طنز و تنقید کے نشتر چلایا کرتے تھے آج لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال کر نہایت عاقبت نا اندیشانہ سیاست کر رہے ہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ عدالتی احکامات ہوا میں اڑا کر کیسز میں نہایت تیز اضافے کے باوجود یہ جلسے پر مصر ہیں۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر مواصلات مراد سعید اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی پی ڈی ایم کے جلسے پر ٹویٹس کیں اور اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ان کی بہن کی منگنی کی تقریب میں آنے والوں کے لیے تو کورونا نیگیٹو ٹیسٹ جمع کرانے کی ہدایات ہیں جبکہ عوام کو جلسوں میں آنے کا کہا جا رہا ہے۔
حکومتی رہنماؤں کے ٹویٹس سامنے آنے کے بعد اپوزیشن نے بھی شدید ردعمل دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’شکر ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں کے بہانے عمران خان کو کورونا کا خیال تو آیا۔ جب حکومت ہاتھ سے نکلنے لگی تو عمران خان کورونا وائرس کی صدائیں لگانے لگے۔ اپوزیشن عمران خان اور کورونا وائرس دونوں سے عوام کو نجات دلائے گی۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ وزیراعظم وضاحت کریں کہ کیا کورونا وائرس صرف اپوزیشن کے جلسوں سے پھیلتا ہے؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ ’جس کورونا کو عمران خان معمولی زکام کہتے تھے، آج اس کا نام لے کر ڈرا رہے ہیں۔ عوام نے عمران خان کو اپنے تیور دکھائے تو انہیں کورونا یاد آگیا۔ عمران خان وضاحت کریں کہ کیا کورونا وائرس صرف اپوزیشن کے جلسوں سے پھیلتا ہے؟ عمران خان کبھی خود بھی عوامی مقامات پر ماسک پہن لیا کریں۔ عمران خان اپوزیشن کے جلسوں کی پیروی کرتے ہوئے ملک میں کرونا وائرس کی ایس او پیز کا نفاذ کریں۔‘
وزیر اعظم عمران خان کے ٹویٹ پر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک لفظی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہیں گی کہ بس ’رو‘۔

شیئر: