Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدہ کی وفات کے بعد شریف خاندان کا نیا امتحان

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر لندن میں انتقال کر گئی ہیں اس بات کی تصدیق مسلم لیگ ن کے راہنما عطااللہ تارڑ نے ٹویٹر پر کی ہے۔
بیگم شمیم اختر فروری 2020 میں پاکستان سے لندن روانہ ہوئی تھی اور اپنے بیٹے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
بیگم شمیم اختر کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سابق وزیر اعظم نواز شریف خود بیماری کے باعث لندن میں قیام پذیر ہیں۔ جبکہ ان کے دونوں بیٹے پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کے تناظر میں مفرور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شریف خاندان میں یہ وفات ایسے وقت میں بھی ہوئی ہے جب  بیگم شمیم اختر کے دوسرے بیٹے اور پاکستان کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جیل میں ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ شہباز شریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز جو کہ صوبہ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ہیں وہ بھی جیل میں ہیں۔ جبکہ سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی مریم نواز جو کہ پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں وہ پاکستان میں موجود ہیں اور عدالتی ضمانت پر ہیں۔
یہ دوسرا واقعہ پے کہ شریف خاندان کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے اکتوبر 2004 میں نواز شریف کے والد جلا وطنی کے دوران جدہ میں انتقال کر گئے تھے۔
اس وقت  ان کی میت پاکستان بھیجی گئی البتہ نواز شریف اور شہباز شریف خاندان کے دیگر افراد نے ان کی نماز جنازہ مسجد الحرم میں ادا کی۔ البتہ میت کے ساتھ وہ خود پاکستان نہیں آئے تھے۔
شریف خاندان کا یہ موقف رہا ہے کہ اس وقت کی پرویز مشرف حکومت نے انہیں واپس آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

شریف خاندان کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے اکتوبر 2004 میں نواز شریف کے والد جلا وطنی کے دوران جدہ میں انتقال کر گئے تھے: فائل فوٹو اے ایف پی

اس سے ملتی جلتی صورت حال سے شریف خاندان کو اس وقت بھی سامنا کرنا پڑا جب نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز طویل علالت کے بعد لندن میں 2018 میں انتقال کر گئیں۔ اس وقت نواز شریف اور ان کی بیٹی جیل میں قید تھے۔ اور اہلیہ کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے ان کو جیل سے پیرول پر رہا کیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف خود بھی علاج کی غرض سے باہر ہیں جبکہ پاکستانی عدالتوں نے انہیں مفرور کا درجہ دے رکھا ہے تو ایسے میں ان کی والدہ کی وفات کے بعد شریف خاندان بیگم شمیم اختر کی تدفین سے متعلق کیا فیصلہ کرتا ہے۔ 
شریف خاندان کے مختلف مقدمات میں قانونی مشیر ایڈووکیٹ اعظم نزیر تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "یہ ایک انتہائی نجی اور حساس معاملہ ہے۔ کیونکہ نواز شریف آپ والدہ کے بہت قریب تصور کئے جاتے تھے اور کئی سیاسی معاملات پر بھی ان کی رائے کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ ایسے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا مکمل طور پر شریف خاندان کی اپنی صوابدید ہے۔"

اس سے ملتی جلتی صورت حال سے شریف خاندان کو اس وقت بھی سامنا کرنا پڑا جب نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز طویل علالت کے بعد لندن میں 2018 میں انتقال کر گئیں: فوٹو اے ایف پی

ایک سوال کے جواب میں کہ بطور ایک قانونی مشیر کے وہ اس صورت پر اپنی کیا رائے رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ "دو چیزیں ہیں کہ ایک تو نواز شریف کی صحت انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے اور دوسرا اگر پاکستان کی عدالتوں کے نظام انصاف کی صورت حال پر انہیں یقین ہو تو انہیں ضرور اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شرکت کرنی چاہیے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ کے رہنما اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف علالت کی وجہ سے پاکستان میں اپنی والدہ کے جنازے میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف طبی وجوہات کہ وجہ سے سفر نہیں کر سکتے۔
پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ بیگم شمیم اختر کے انتقال پر نواز شریف اور حمزہ شہباز کو پیرول پر رہا کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان کی میت کل پیر کو لندن سے لاہور کے لیے روانہ کی جائے گی۔

شیئر: