Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن تعلیم سے تنگ والدین کے پاس دوسرے آپشنز کیا ہیں؟

کورونا وبا کے باعث پاکستان میں ایک بار پھر سکولز بند کر دیے گئے ہیں اور وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کے مطابق اب بچوں کو گھر پر آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ تاہم انٹرنیٹ اور کمپیوٹرز کی عدم دستیابی اور اساتذہ و طلبہ کی ٹیکنالوجی سے عدم وافقیت کی وجہ سے والدین کی بڑی تعداد آن لائن تعلیم کی افادیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ 
آن لائن تعلیم کے مسائل سے تنگ آئے والدین اب اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملحق شہر راولپنڈی کے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے بتایا کہ آن لائن تعلیم کا زیادہ فائدہ نہیں ہو پا رہا اور گھر پر خود بچوں کو پڑھانے یا بچوں کے لیے گھر پر ٹیوٹرز کا بندوبست کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
والدین کے مطابق بچے ناصرف آن لائن کلاسز سے تعلیمی فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے بلکہ کمپیوٹرز، ٹیبلٹس اور موبائل پر زیادہ وقت گزارنے کے باعث ٹیکنالوجی کی عادت کا شکار ہو کر بھی پڑھائی سے دور ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف طلبہ بھی آن لائن تعلیم کو اپنے لیے مشکل قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کلاس ون کے سٹوڈنٹ مصطفی کا کہنا تھا کہ ٹیچر تیز تیز پڑھا کر چلی جاتی ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا اس لیے انہیں سکول جانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
او لیول کے طالب علم معید الدین کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر ٹیچرز کو ٹیکنالوجی سے آگاہی نہ ہونے کی بنا پر نئی نسل کے ٹیکنالوجی کے ماہر طلبہ آن لائن کلاس میں انہیں عجیب طریقوں سے الجھا دیتے ہیں۔‘
’کبھی کوئی طالب علم ٹیچر کا مائیک میوٹ کر دیتا ہے تو کبھی آن لائن کلاس سے باہر کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ طلبہ ٹیچرز کو کمپوٹرز کے غلط بٹن دبانے کا مشورہ دے کر انہیں کمپیوٹر کلاس سے باہر بھی کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اساتذہ طلبہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور پڑھائی کا ماحول نہیں بن پاتا۔
’سب کچھڑی سی بن جاتی ہے کسی کو پتا نہیں ہوتا کہاں جانا ہے۔ کیا سمجھنا ہے کیا سمجھانا ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: