Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دہلی چلو‘: انڈیا میں کسانوں پر لاٹھی چارج

پہنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کے دارالحکومت دہلی کی طرف مارچ کرنے والے چھ ریاستوں کے کسانوں کو جگہ جگہ بندشوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے لیکن وہ مختلف گروپس میں دہلی کی طرف گامزن ہیں۔
گذشتہ روز جہاں پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا وہیں آج جمعے کی صبح انھیں ہریانہ اور دہلی کی سرحد پر روکا گیا ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
ان کسانوں کے متعدد مطالبات ہیں لیکن وہ ستمبر میں زراعت کے شعبے میں لائے جانے والے نئے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون کسان مخالف ہے اور کارپوریٹ کے فائدے کے لیے ہے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اسے کسانوں کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
جن چھ ریاستوں سے کسان دہلی کی طرف مارچ کر رہے ہیں ان میں اترپردیش، ہریانہ، اترکھنڈ، راجستھان، کیرالہ اور پنجاب کے کسان شامل ہیں۔ وہ دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
'دہلی چلو' کے نعرے کے تحت مارچ کرنے والے کسانوں کو روکنے کے لیے جگہ جگہ خاردار تاریں لگائی کئی ہیں جبکہ ریت سے بھرے ٹرالرز بھی شاہراہوں پر کھڑے کیے گئے ہیں۔ ہریانہ کو جانے والی میٹرو سروسز کو بھی بند کر دیا گیا۔

چھ ریاستوں کے کسانوں کو جگہ جگہ بندشوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پولیس ان لوگوں کو دہلی آنے سے روکنے کی وجہ کورونا کا پھیلاؤ بتاتی ہے۔ این ڈی ٹی کے مطابق ایک کسان رہنما نے سوال کیا ’کووڈ کا قانون صرف کسانوں پر ہی کیوں لگایا جا رہا ہے۔ کسانوں کو روکنے کے لیے اکٹھے ہونے والے پولیس اہلکاروں پر کیوں نہیں لگایا جا رہا تو پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ وہ بھی کسان ہی ہے۔'
خیال رہے کہ انڈیا کی نصف سے زیادہ آبادی کاشتکاری پر انحصار کرتی ہے اور اس سے جڑے ذرائع معاش سے ہی وابستہ ہے۔
کسانوں کے معروف رہنما راکیش ٹکیت نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ 27 تاریخ سے کسان سڑکوں پر آئیں گے اور اترپردیش کی تمام شاہراہوں کو بند کر دیں گے۔
 
ملک کے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا ہے کہ حکومت بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
انھوں نے کہا ’نیا قانون وقت کی ضرورت ہے۔ یہ قانون کسانوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلی لائے گا۔ پنجاب کے کسان بھائی ابہام کا شکار ہیں اور انھیں دور کرنے کے لیے سیکریٹری کی سطح کی پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ’میں نے بھی کسان تنظیموں سے بات کی ہے اور حل نکالا ہے۔ اس کے متعلق اگلی بات چیت کی تاریخ تین دسمبر رکھی گئی ہے۔‘
انھوں نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی تحریک واپس لے لیں کیونکہ حکومت ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔

کسان ستمبر میں زراعت کے شعبے میں لائے جانے والے نئے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فوٹو بزنس انسائیڈر

اس سے قبل گذشتہ روز ہریانہ کے وزیر اعلی اور پنجاب کے وزیر اعلی کے درمیان ٹوئٹر پر اس حوالے سے ’جنگ‘ جاری رہی جبکہ سوراج پارٹی کے رہنما یوگیندر یادو جو ایک گروپ کی رہنمائی کر رہے تھے، انھیں حراست میں لے لیا گیا۔
پنجاب میں کانگریس حکومت کے وزیر اعلی نے ٹویٹ کیا:
'تقریبا دو ماہ سے کسان پنجاب میں پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں، ہریانہ حکومت قوت کا سہارا لے کر انھیں مشتعل کیوں کر رہی ہے۔ کیا کسانوں کو پرامن طریقے سے شاہراہ سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ نئے قانون کو کسان کے حق میں مانتی ہے۔

شیئر: