Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈائنا سار کے ڈھانچے کی طرح ’عجیب‘ پرندہ

ڈھانچہ پرندوں کی ان قسموں میں سے ایک تھا جو ڈائنا سار کے زمانے میں وجود رکھتے تھے (فوٹو:اے ایف پی))
محکمہ آثار قدیمہ نے 68 ملین سال قبل کی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ دریافت کیا ہے جو خرگوش کے دانتوں سے مشابہت رکھتا ہے۔  یہ پرندوں کی ان قسموں میں سے ایک تھا جو ڈائنا سار کے زمانے میں وجود رکھتے تھے۔
ایسے پرندے کی کھوپڑی دریافت کی گئی ہے جس کی لمبائی نو سینٹی میٹر سے بھی کم تھی اس کی طرف کسی کا دھیان نہ جاتا لیکن جب اسے سکینر کے ذریعے دیکھا گیا تو ماہرین کی اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔

کسی چیز سے مماثلت نہیں:

اس پرندے کی بڑی مڑی ہوئی چونچ جسے سائنس دانوں نے ویلکاٹاکلی کا نام دیا ہے، یہ نہ صرف موجودہ پرندوں میں سے کسی کی چونچ سے مشابہت رکھتی ہے ، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ اس کے زمانے کی معلوم ہونے والی کسی بھی چیز سے مماثلت نہیں رکھتی ہے۔
اس تحقیق کو سامنے لانے والے ماہر پیٹرک اوکونور نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو میں کہا کہ ’میسوزوک پرندے جس کی عمر 250 سے 65 ملین سال کے درمیان ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘
اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں اناٹومی اور نیورو سائنس کے پروفیسر کے مطابق ’ویلکاٹاکلی نامی پرندہ جو اپنی اونچی اور لمبی چونچ کی وجہ سے مشہور ہے اس کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ یہ قرون وسطی کے دوران پایا گیا تھا۔‘

حیران کن پہلو:

پرندے کی کھوپڑی کے مطالعے سے دیگر حیران کن پہلو بھی سامنے آئے، جیسا کہ اوکونو نے وضاحت کی ہے کہ ’اس کا ڈھانچہ اس ڈائنا سار سے مشابہت رکھتا ہے جو اڑ نہیں سکتا جبکہ اس کی شکل موجودہ دور کے پرندوں سے بھی ملتی ہے۔‘
اس کھوپڑی کو سنہ 2010 میں شمال مغربی مڈغاسکر میں دریافت کیا گیا تھا لیکن سائنس دانوں نے سات سال بعد اس پر تحقیق شروع کی۔ انہیں ایک بڑی رکاوٹ جس کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھی کہ اس کی چونچ اور کھوپڑی اتنی نازک تھی کہ اسے پتھروں کی تہہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا تھا۔

پرندے کا ڈھانچہ اس ڈائنا سار سے مشابہت رکھتا ہے جو اڑ نہیں سکتا تھا (فوٹو:سوشل میڈیا)

تاہم ماہرین نے ڈیجیٹل ماڈل تیار کرنے کے لیے ہڈیوں کے "ورچوئل ڈائسیکشن" کے ذریعے اس مسئلے کو دور کیا ، جو اس کے بعد دوسرے نمونوں کی نقل بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ استعمال ہوا۔

حیوان کی دریافت:

کیمبرج میں محکمہ ارتھ سائنس کے شعبہ ڈینیئل فیلڈ کے مطابق ’سائنس دانوں نے اس کے ذریعے ایک جانور دریافت کیا جس کا وجود ممکن ہی نہیں تھا ۔
نہ صرف پرندے کی چونچ کی ساخت غیر معمولی تھی ، بلکہ اس میں کم از کم ایک دانت بھی تھا ، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس کے جبڑے میں مزید دانت تھے۔
فیلڈ نے مزید لکھا  کہ ان خصوصیات سے ویلکاٹاکلی کی ایک مضحکہ خیز تصویر ابھرتی ہے۔ اس سے یہ  تصور پیدا ہوا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو چھوٹے پرندوں سے مشابہت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دور میں پائی جانے والی پرندوں کی 200 قسموں میں سے کسی کی کھوپڑی ویلکاٹاکلی سے مماثلت نہیں رکھتی۔‘

دریافت کیے گئے ڈھانچے سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندے کی شکل موجودہ دور کے پرندوں سے بھی ملتی ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

پروفیسر او کونر نے واضح کیا کہ یہ دریافت پرندوں کی قسموں سے بڑی لاعلمی کا ثبوت دیتی ہے جو ڈایناسور کے عہد میں رہتے تھے۔

پچاس ملین سال پرانا:

پروفیسر او کونر کہتے ہیں کہ ’ ہم 50 ملین سال سے زیادہ پرندوں کے ارتقاء کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔‘
وہ ٹیم جس نے والکاٹاکلی کو دریافت کیا تھا وہ مڈغاسکر میں اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے ، پروفیسر اوکونر امید کرتے ہیں کہ وہ ان طریقوں کے بارے میں جان سکے جس میں یہ پرندہ اپنی چونچ استعمال کرتا ہے۔
’کیا وہ کھانا چبانا ، شکار پکڑنے کے لیے پرندوں کی طرح اپنی چونچ کا استعمال کر رہا تھا؟ ابھی بہت سارے سوالات باقی ہیں۔

شیئر: