Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سردیوں میں سیاحت کے بہترین مقامات کون سے ہیں؟

'اگر آپ نے کسی مشہور پکنک سپاٹ سے ذرا ہٹ کر کہیں جانا ہو تو اکیلے جاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔'
یہ کہنا ہے پاکستان کے شہر کراچی کی سیاح عنبر ذوالفقار کا جو ٹریول وی لاگر ہیں اور اکثر کہیں نہ کہیں سیر پر جاتی رہتی ہیں۔
 ایسے ہی ایک سفر پر ایک مرتبہ ان کی جان پر اس وقت بن گئی جب وہ شمالی پاکستان کی کمراٹ ویلی میں کٹورہ جھیل کے آس پاس ہائیکنگ کے لیے گئیں۔

 

ہائیکنگ کے دوران پھسلنے کے باعث میرا ٹخنہ فریکچر ہو گیا۔ وہاں آس پاس کہیں بنیادی طبی امداد کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ ایسے میں میرے دوستوں نے بڑی مشکل سے مجھے پہاڑی سے واپس نیچے اتارا۔
'ٹخنے میں ہیر لائن فریکچر کے ساتھ لڑکھڑا لڑکھڑا کر نیچے اترنا پڑا۔'
یہ صرف کمراٹ ویلی کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہاں سیاحوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بلکہ جہاں پاکستان کے پاس بے پناہ خوبصورت مقامات ہیں وہاں ان میں سے بہت سی جگہیں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے سیاحوں کو شدید مشکلات ہوتی ہیں۔
بالخصوص سردیوں میں جب شمالی علاقہ جات میں بہت زیادہ برف پڑ رہی ہوتی ہے اور وہاں رستوں کی بندش اور بے پناہ سردی کی وجہ سے سیاح کہیں اور جانا چاہتے ہیں تو انہیں سیاحت کے لیے مناسب مقامات منتخب کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
عنبر کہتی ہیں کہ  اگر موسم سرما میں سیر کے لیے  کہیں جانا ہو تو  پاکستان کے وسطیٰ میدانی علاقوں اور ملک کے جنوب کا رخ کرنا چاہیئے جہاں اب تک ٹورازم اتنا زیادہ نہیں جتنا کہ شمالی علاقوں میں ہے۔
عنبر نے بتایا  کہ پاکستان میں موسم سرما کی مناسبت سے سیاحتی مقامات کی کمی نہیں، کمی ہے تو بس سہولیات کی۔

اسلام آباد سے 50 کلو میٹر سے 150 کلومیٹر کی مسافت پر کئی ایسے سیاحتی مقامات ہیں جو ایک دن کے ٹرپ میں ممکن ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جنوبی پنجاب کے قدیم شہر ملتان میں اولیا کرام کے مزارات ہوں یا بہاولپور کے نوابوں کی شان و شوکت ، یا چولستان صحرا میں دوستوں کے ساتھ کیمپنگ، یہ سب مقامات سردیوں میں سیر کے لیے بہترین ہیں۔ چولستان صحرا میں فروری کے وسط میں مشہور جیپ ریلی کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن سیاحوں کو شکایت ہے  کہ اب انہیں چولستان میں کیمپنگ کی اجازت نہیں دی جا رہی۔سندھ کی طرف نکلیں تو موہن جو دڑو کی قدیم تہذیب ،مکلی قبرستان ،رانی کوٹ قلعہ  اورصحرائے تھر سیاحت کے لیے موزوں مقامات ہیں۔
اگر آپ ایک سے دو دنوں کے مختصر ٹور بھی پلان کرنا چاہتے ہیں تو ایسے کئی مقامات  ہیں جہاں آپ صبح جا کر شام کو گھر واپس آ سکتے ہیں۔ نہ لمبے سفر کی ٹینشن، نہ قیام طعام کا خرچہ۔
اسلام آباد سے 50 کلو میٹر سے 150 کلومیٹر کی مسافت کے باعث کئی ایسے سیاحتی مقامات ہیں جو ایک دن کے ٹرپ میں ممکن ہیں ۔ مری کی ہم زیادہ بات نہیں کریں گے کیونکہ آپ میں سے اکثر نے اور کوئی ہل سٹیشن دیکھا ہو یا نہیں، مری سب ہی گئے ہیں۔
راولپنڈی شہر سے براستہ جی ٹی روڈ تقریباً 50 کلو میٹر کی مسافت پر خانپور ڈیم صبح جا کر شام واپس گھر آیا جا سکتا ہے۔
ایسے مقامات میں ضلع چکوال اور سون ویلی کی جھیلیں بھی آتی ہیں۔ کلر کہار جھیل تو تقریباً آپ سب نے دیکھ رکھی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اس علاقے میں کئی جھیلیں ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو کم معلومات ہیں۔ ان میں کھبیکی جھیل، اچھالی جھیل اور جھالر کی جھیلیں شامل ہیں مگر ان تک پہنچنے کے لیے راستہ اتنا ہموار نہیں۔ 

 نتھیا گلی میں سنو ہائیکنگ کا ٹرینڈ بھی بڑھتا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

گلیات میں نتھیا گلی سے تھوڑے فاصلے پر مشک پوری اور میران جانی جیسی جھیلیں بھی حالیہ برسوں میں سیاحوں میں مقبول ہو رہی ہیں۔ خاص کر جب سے ہوٹلز کھلنے اور سیاحت کی دیگر سہولیات کی فراہمی کے بعد سیاح ان جھیلوں کا رخ کرنے لگے ہیں۔
 نتھیا گلی میں سنو ہائیکنگ کا ٹرینڈ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ موسم سرما کے عروج پر جب وادیِ گلیات برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے تو ملک کے جنوب سے شمال کی جانب ہزاروں سیاح یہ مناظر دیکھنے کے لیے رخ کرتے ہیں۔
اسی طرح راولپنڈی سے تھوڑے ہی فاصلے پر کوٹلی ستیاں میں بھی خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں جہاں آپ پکنک منا سکتے ہیں۔
پاکستان کے جنوب میں کراچی سے باہر نکلتے ہی حب شہرسے بلوچستان کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں سے لگ بھگ 50 کلو میٹر کی مسافت پر سب سے پہلے کُنڈ ملیر کا سیاحتی مقام آتا ہے۔  نیشنل کوسٹل  ہائی وے پر مزید ڈرائیو کر کے اُرماڑہ، پسنی اور گوادر کے ساحل سمندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسی صاف بیچز پاکستان تو کیا شاید ہی دنیا میں کہیں اور ملیں گی۔
 
 لیکن یہاں شام ڈھلنے کے بعد سفر کرنے کا خطرہ غیر ملکی تو چھوڑیں ، مقامی سیاح بھی مول نہیں لیتے۔ سیاحوں کے لیے تفریحی ٹورز کا اہتمام کرنے  والے اعجاز سہیل نے گذشتہ سال جب غیر ملکی سیاحوں کے ایک وفد کا بلوچستان کا ٹرپ پلان کیا تو بقول ان کے'کئی کئی سو کلو میٹر تک درمیان میں نہ کوئی شہری آبادی آتی ہے اور نہ ہی کوئی ہوٹل وغیرہ۔ اس لیے سیاح ایسا سفر کرتے ہوئے گھبرا جاتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہنزہ ویلی کو چھوڑ کر اکثر جگہوں پر اکیلے سفر کرنا خاص کر خواتین کے لیے اتنا محفوظ نہیں۔

عنبر کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی مرد ساتھ ہو تب ہی آپ بس پر سفر کر سکتے ہیں، اکیلے نہیں۔‘ (فوٹو: عنبر ذوالفقار)

عنبر کہتی ہیں ، ’اگر کوئی مرد ساتھ ہو تب ہی آپ بس پر سفر کر سکتے ہیں، اکیلے نہیں۔
عنبر جب بھی کسی جگہ سیر کا پلان بناتی ہیں تو سب سے پہلے مقامی افراد سے رابطہ کرتی ہیں اور ان سے ایک اعتماد کا تعلق بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ سیاحتی مقام پہنچ کر کسی خاندان کے ساتھ ان کے  گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں جو ان کے خیال میں ان کے تحفظ کی ضمانت ہے ۔
ان کے خیال میں حکومت کو ہر موسم کے لحاظ سے سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر وہاں مناسب سہولیات کا بندوبست کرنا چاہیئے۔
پاکستان میں نہ تو خوبصورت مقامات کی کمی ہے اور نہ ہی مہمان نواز لوگوں کی۔

شیئر: