Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ریاست ماتم نہیں بلکہ رٹ پر عمل کرواتی ہے‘

حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم مختلف شہروں میں جلسے منعقد کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں جوں جوں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے توں توں حکومت اور اپوزیشن کے بیانیے میں سختی پیدا ہو رہی ہے۔
اپوزیشن نے کورونا کے باوجود اپنے جلسے موخر نہیں کیے تو حکومتی ایوانوں کی جانب سے رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کے بیانات بھی تواتر سے آرہے ہیں۔
چونکہ اپوزیشن کے اگلے جلسوں کا محور پنجاب ہے تو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے یہ بیان دو بار دیا گیا ہے کہ ’ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔‘

ریاست کی رٹ سے کیا مراد ہے؟

ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی امر ہے کہ ریاست کی رٹ کا تصور بنیادی طور پر ہے کیا۔ اور کیا سیاسی طور پر جلسے کرنے یا احتجاج کرنے سے ریاست کی رٹ متاثر ہوتی ہے؟
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حکومتی ایوانوں سے ایسے بیان سامنے آرہے ہیں۔ ماضی میں بھی حکومتیں اپوزیشن کے احتجاج پر ایسے بیان دیتی رہی ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کا تعلق پاکستان کے بڑے وکیلوں اور آئینی ماہرین میں ہوتا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی رٹ کا مطلب قانون کی پاسداری ہے۔ ’ریاستی رٹ کا مطلب ہے کہ جو قانون میں لکھ دیا گیا ہے یا آئین میں لکھ دیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کروانا۔ یہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کروائے۔‘

کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت نے جلسوں پر پابندی عائد کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

موجودہ سیاسی پس منظر میں ان کا کہنا تھا کہ ’جلسے کرنا یا احتجاج کرنا اصل میں بولنے کا حق ہے جو کہ آئین میں درج ہے۔ اور احتجاج کسی ایسی شکل میں نہ داخل ہو جائے جس میں قانون کی عملداری متاثر ہو تو ریاستی رٹ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ حکومت کا کام رٹ بحال کرنے کے بیان دینا نہیں ہوتا ریاست ماتم نہیں کرتی بلکہ رٹ پر عمل کرواتی ہے۔‘
چوہدری اعتزاز احسن کے مطابق ریاست کی رٹ سے مراد آئین ہے۔
’آئین ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست کے امور اور عوام کے حقوق متعین کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر مکمل عمل درآمد ہی اصل میں ریاستی رٹ ہے۔‘

پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

اعتزاز احسن سمجھتے ہیں کہ حکومتیں بہرحال رٹ کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ’جیسے اب کورونا کے حوالے سے قانون سازی کی گئی کچھ ایسے قوانین بنائے گئے جو کورونا کی روک تھام کے لیے موثر سمجھے گئے۔ اب اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے اور بار بار کرے تو اس قانون پر عمل درآمد کروانے کو ہی رٹ کی بحالی کہا جائے گا۔‘
سلمان اکرم راجہ بھی حکومت کی جانب سے رٹ کی بحالی کے سیاسی انداز میں دیکھتے ہیں ’سنجیدہ رٹ کا مسئلہ اس وقت درپیش آیا تھا جب طالبان نے سوات میں متوازی نظام قائم کر لیا تھا۔ تو حکومت نے فوجی آپریشن کرکے رٹ بحال کی۔ حکومتیں اپوزیشن کے خلاف ایسے بیان دیتی رہتی ہیں یہ اس صورت میں کہا جا سکتا ہے جب کوئی قانون کو ہاتھ میں لے۔ لوگوں کے جان مال کی حفاظت بنیادی حکومتی ذمے داری ہے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں