Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی احکامات کے باوجود نجی تعلیمی اداروں میں خفیہ کلاسز

حکومت پاکستان نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 26 نومبر سے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں تاہم بعض نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ 
اردو نیوز کو موصول ہونی والی معلومات اور مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہروں میں نجی تعلیمی ادارے تو بند ہیں لیکن مضافاتی علاقوں میں اب بھی بعض نجی تعلیمی اداروں میں کلاسز جاری ہیں۔​
راولپنڈی کے علاقے مصریال میں ایک نجی تعلیمی ادارے نے طلبہ کو یونیفارم کے بجائے عام کپڑوں میں سکول آنے کی ہدایت کی ہے۔ انتظامیہ کی نظروں سے بچنے کے لیے سکول کا مرکزی دروازہ بند رکھا جاتا ہے جبکہ طلبہ کو ادارے کا عقبی دروازہ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا سکول کی پرنسپل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے سکول میں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سکول بند کر کے بچوں کا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ طلبہ کو امتحانات کے لیے بلایا گیا ہے۔
پرنسپل نے ادارے کو کھلا رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی سہ ماہی امتحانات نہیں ہو سکے تھے، اور اب اگر سکول بند کیے تو طلبہ کے امتحانات بھی نہیں ہو پائیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بیشتر تعلیمی اداروں کی طرح آن لائن یا کارکردگی جانچنے کے لیے ہوم ورک دینے کا طریقہ کار کیوں نہیں اپنایا جارہا تو انہوں نے کہا کہ ’ہوم ورک دینے کا کیا فائدہ ہے؟ ہمیں تو نہیں پتہ چلے گا کہ یہ بچوں نے خود حل کیا ہے یا والدین نے حل کر کے دیے ہیں؟ پہلے بھی تو دو ماہ تک سکول کھلے تھے، پہلے بھی تو کورونا تھا اور ہم ایس او پیز فالو کر رہے تھے۔‘

 مضافاتی علاقوں میں اکثر سکول احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بارہ کہو کے رہائشی محمد طاہر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جس سکول میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں وہ سکول حکومتی فیصلے کے باوجود اب بھی کھلے ہیں اور والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کو بغیر یونیفارم کے سکول بھیجیں۔‘
مقامی شہری محمد طاہر کے مطابق ’اگر ہم اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے تو ظاہر ہے سکول سے ان کو خارج کر دیا جائے گا، ہم بالکل ایسا نہیں کرسکتے، ہم چاہتے ہیں کہ ہوم ورک دیا جائے تاکہ ان کی پڑھائی کسی طرح جاری رہے۔‘
نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھائی گئی ہے۔ 
علی عباسی نامی ٹوئٹر صارف نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وفاقی دارالحکومت کے علاقے لہتراڑ روڈ پر پرائیویٹ سکول مالکان نے حکومتی حکم نامے کی دھجیاں اڑا دیں۔ سکول بند ہونے کے باوجود اکثر پرائیویٹ سکول مالکان سکول بند کرنے سے انکاری ہیں۔‘
ایک اور صارف خرم ضیا اعوان نے ’ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو اپنی ٹویٹ میں ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’محترم ڈی سی صاحب آپ کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ اسلام آباد کے ایک سیکٹر بی 17 میں سکول کھلے ہیں، جہاں پیر سے جمعرات کلاسز ہوتی ہیں۔ کیا اسلام آباد میں سکول کھولنے کی اجازت ہے؟‘
جلال الدین مغل نامی صارف نے سوال اٹھایا کہ 'بارہ کہو میں تو بیشتر سکول کھلے ہیں، آپ نے کونسے بند کیے؟ صرف سرکاری؟'

انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

راولپنڈی میں بعض نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی پر  ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے اردو نیوز  کو بتایا کہ 'ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی ٹیمیں تعلیمی اداروں پر حکومتی فیصلوں کی عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں اور اس ضمن میں جہاں جہاں بھی تعلیمی ادارے کھلے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'والدین کی شکایات پر متعدد سکولوں پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں اور تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔‘
راولپنڈی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے فوکل پرسن مشتاق سیال نے بتایا کہ ’نجی سکولوں پر حکومتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے اب تک مختلف علاقوں میں درجنوں سکولوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جس میں ابتدائی طور پر تعلیمی اداروں کو وارننگ دی گئی، تاہم اگر دوبارہ خلاف ورزی دیکھنے میں آئی تو ایسے تعلیمی اداروں کو سیل کر دیا جائے گا جبکہ ان کے خلاف مزید سخت کارروائی بھی عمل میں لائے جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ اب تک شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم چھوٹے تعلیمی اداروں کی جانب سے حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی دیکھنے میں آئی ہے۔

انتظامیہ کے مطابق مخلتف سکولوں کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے خلاف ورزیوں پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کہتے ہیں کہ خلاف ورزی کرنے والے تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کی جائی گی اور پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی کو ایسے تعلیمی اداروں کو سیل کرنے کا کہا جائے گا۔
صوبائی وزارت تعلیم پنجاب کے ترجمان سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'تعلیمی اداروں پر عملدرآمد کروانا وازرت کا نہیں بلکہ ضلعی محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کا کام ہے، ہمارے علم میں تعلیمی اداروں کی جانب سے خلاف ورزی کے حوالے سے جب معلومات آتی ہیں تو اس پر کارروائی ضرور کی جارہی ہے۔' 
تاہم انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ بعض نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے خلاف ورزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

شیئر: