Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم کا ’آر یا پار‘ اجلاس، جو کہنا تھا مولانا نے کہہ دیا

اجلاس کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو نے میڈیا سے بات نہیں کی: فائل فوٹو اے ایف پی
آٹھ دسمبر کی تاریخ سیاسی کیلنڈر پر اس وقت اہمیت اختیار کر گئی تھی جب چند دن قبل لاہور میں اپنے سوشل میڈیا ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز نے کہا تھا کہ اس دن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ’آر یا پار‘ ہو گا۔
اسی دن سے سیاسی حلقوں اور میڈیا میں تبصرے شروع ہو گئے تھے کہ آخر آٹھ دسمبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس میں اپوزیشن اپنی پٹاری سے ایسا کیا نکالے گی کہ حکومت کے لیے ’آر یا پار‘ والی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔
یہ سوچتے ہوئے کہ اتنے تاریخی اجلاس کو آنکھوں سے دیکھنا چاہیے، میں بھی اسلام آباد کے نسبتاً دیہی علاقے میں واقع مسلم لیگ ن کے دفتر کے جانب روانہ ہوا جہاں پی ڈی ایم کی قیادت شام تین بجے سے سر جوڑے بیٹھی تھی۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما طارق فضل چوہدری کی جانب سے بنائے گئے وسیع و عریض دفتر کے اندر اجلاس جاری تھا جبکہ اس کی کوریج کے لیے آنے والے درجنوں صحافی اور کیمرا مین شدید سردی میں عمارت کے باہر شامیانے میں کھڑے ٹھٹھر رہے تھے۔ چند درجن کارکن بھی کیچڑ میں کھڑے نظر آ رہے تھے۔
اندر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما موجود تھے جبکہ ویڈیو لنک پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری بھی اجلاس میں شریک تھے۔
توقع تھی کہ تین بجے شروع ہونے والا اجلاس چھ بجے تک ختم ہو جائے گا مگر باہر موجود صحافیوں کی خواہش کے برعکس اجلاس طویل ہوتا گیا۔ تاہم باہر کھڑے کارکنوں اور صحافیوں نے اس وقت سکھ کا سانس لیا جب آٹھ بجے کے قریب مولانا فضل الرحمن ڈائس پر آئے، ان کے دائیں جانب مریم نواز اور بائیں جانب بلاول بھٹو تھے۔
تاہم پانچ گھنٹے کے اجلاس کے بعد تقریباً سات منٹ جاری رہنے والی پریس کانفرنس میں صرف مولانا فضل الرحمن ہی میڈیا سے مخاطب ہوئے جبکہ مریم نواز نے صحافیوں کے اصرار کے باوجود صرف اتنا کہا  کہ ’مولانا فضل الرحمن نے جو کچھ کہا ہے سب کی یہی بات ہے۔‘
مولانا کی پریس کانفرنس میں آر یا پار والی کوئی بات نہ سننے پر وہاں موجود کارکنوں کا جوش کم پڑ گیا۔
جب وہاں موجود پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی سے پوچھا کہ اجلاس میں کیا بڑی پیش رفت ہوئی تو انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا کہ جو کہنا تھا مولانا نے کہہ دیا ہے۔

پی ڈی ایم کے اجلاس میں فصیلہ کیا گیا کہ 13 دسمبر کو ہر صورت میں جلسہ ہو گا: فائل فوٹو اے ایف پی 

قریب ہی موجود عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور پی ڈی ایم کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین سے میں نے پوچھا کہ آج کے اجلاس میں آر یا پار والی کونسی بات ہوئی تو وہ مسکرا دیے مگر بولے کہ استعفے 31 دسمبر تک پارٹی رہنماؤں کو جمع کروانے کا فیصلہ اہم ہے۔
جب ان سے پوچھا کہ استعفے دیے کب جائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا پورا شیڈول بعد میں طے ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نو دسمبر کو پی ڈی ایم کی سٹیئرنگ کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کب ہو گا اور پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈاؤن  کی تاریخیں کیا ہوں گی۔
اجلاس کے دوران باہر موجود ٹی وی کے صحافیوں نے اپنے اپنے چینلز کو مختلف ’اندر‘ کی خبریں بتائیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ تمام پارٹیوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے استعفے مولانا فضل الرحمن کو جمع کروائیں گے تاہم اجلاس کے بعد مولانا نے واضح کیا کہ ایسی خبریں غلط ہیں۔
اجلاس کے بعد جس تیزی سے تمام رہنما نکل کر روانہ ہوئے اس سے یہ تاثر نہیں ملا کہ کوئی بڑا اتفاق رائے ہوا ہے، تاہم میاں افتخار حسین نے واضح طور پر کہا کہ اتحاد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اجلاس کے حوالے سے ایک سوال پر جاتے جاتے جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما شاہ اویس نورانی نے برجستہ کہا کہ ان کے پاس آج کوئی خبر نہیں ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں