Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینی کی’نیشنل ایوریج پرائس‘ کہیں مبارکبادیں تو کہیں کھٹے میٹھے سوال

پاکستان دنیا میں گنا پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی کی قیمت گزشتہ ماہ کی نسبت کم کرنے پر حکومتی حکمت عملی اور ٹیم کی کاوشوں کو سراہا تو مہنگائی کی صورتحال کا سامنا کرتے صارفین نے کہیں انہیں مبارکباد دی اور کہیں کٹھے میٹھے سوالات کے انبار لگا دیے۔
عمران خان نے ٹوئٹر پر دیے گئے ایک پیغام میں چینی کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا ’ماشااللہ، ایک ماہ قبل کے 102 روپے کے مقابلے میں چینی قومی سطح پر اوسطا 81 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ میں اپنی ٹیم کو کثیرالجہتی حکمت عملی کے ذریعے چینی کی قیمت نیچے لانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں‘۔
 

وزیراعظم کے پیغام کے بعد ان کے حامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حکومتی کاوشوں کی تعریف کی گئی اور چینی کی قیمتوں میں کمی کو سراہا گیا تو دیگر ماضی یاد دلاتے رہے۔
سندھ حکومت کی وزیربرائے ترقی خواتین سیدہ شہلا رضا نے اپنی ٹویٹ میں سوال پوچھا کہ ’جب آپ نے 2018 میں حکومت سنبھالی تو اس وقت چینی کی قیمت کیا تھی‘ْ

ماجد علی نامی ایک صارف نے صوبائی وزیر کو جواب دیا تو پہلے ان سے پیپلزپارٹی دور حکومت کی ابتدا اور اختتام میں چینی کی قیمت کا پوچھا اور پھر ماضی میں ڈالر کی قیمت کا موجودہ شرح تبادلہ سے موازنہ کر کے ثابت کیا کہ قیمت پرانی سطح پر نہ جانے کے دیگر اسباب کیا ہیں۔

دو برس قبل کی قیمت، پھر اضافے اور اب قدرے کمی کا ذکر ہوا تو ایک صارف نے لکھا ’گزشتہ عرصے میں آپ کے اقتدار کے دوران شوگر مافیا نے جو منافع کمایا اس کا کیا ہو گا؟ 81 روپے فی کلو بھی بہت زیادہ ہے، چینی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز کی قیمت 60 روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔‘

ماضی میں حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ شوگر مافیا کی وجہ سے ہوا ہے۔ وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا تو تحقیق بھی کرائی گئی جس میں چینی بحران کے ذمہ داران کی نشاندہی ہوئی تو متعدد حکومتی شخصیات کے نام بھی زیربحث آئے تھے۔ اسی تناظر میں بات آگے بڑھی تو ایک صارف نے پوچھا کہ مافیا نے جو منافع کمایا اس کا کیا ہو گا؟ انہیں کب ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟

چینی کی قیمت میں کمی پر حکومت کو سراہنے والے صارفین نے اس معاملے پر مبادکباد دی تو آٹے کی قیمتوں میں کمی کی امید بھی ظاہر کی۔

قیمت میں کمی کے باوجود پرانی سطح سے اوپر رہنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں موجود چینی کا معیار زیربحث آیا تو کسی نے اسے بیرون ملک سے منگوایا گیا غیرمعیاری شوگر پاؤڈر کہا تو کچھ صارفین نے نشاندہی کہ ’اس کی کوالٹی اچھی نہیں ہے‘۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے وزیراعظم کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا تو کچھ سوشل میڈیا یوزرز نے لگے ہاتھوں ان سے بھی پوچھ لیا کہ ’قوم پر بھاری بوجھ کا جواب ضرور دیں‘۔

قیمت میں کمی پر تعریف، سابقہ قیمت سے زیادہ رہنے پر تنقید، مافیا کی منافع خوری جیسے پہلو ٹائم لائنز پر ڈسکس ہوتے ہوتے بات ٹویٹ کیے جانے یا نہ کیے جانے تک جا پہنچی۔ علی عمران نامی ایک صارف نے طنزیہ انداز اپنایا تو لکھا ’یہ والی (ٹویٹ) ڈرافٹ میں رہنی چاہیے تھی‘۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث کے دوران کچھ صارفین نے چینی کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے اسباب کی نشاندہی کی تو بتایا کہ طلب کے مقابلے میں رسد بڑھنے اور وقت سے قبل کرشنگ سیزن شروع ہونے سے ایسا ہوا ہے۔

شیئر: