Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا یہ جلسے پاکستان میں تعصبات کو ہوا دینے کے لیے ہیں؟‘

لاہور میں درجن بھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے تقسیم برصغیر سے قبل کی تاریخ کا حوالہ دیا تو اس نے سیاسی بحث میں الجھے سوشل میڈیا کو ایک تاریخی موضوع پر طبع آزمائی کا موقع دے ڈالا۔
پی ڈی ایم رہنما نے اتوار کو کی گئی اپنی گفتگو میں اگرچہ تاریخ سے متعلق حوالہ دیتے ہوئے پہلے معذرت کی اور تمہید بھی باندھی لیکن ’پنجابیوں کا افغانوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دینے‘ کا شکوہ بہت سارے تبصروں کی بنیاد بن گیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لائیو نشر کی جانے والی تقریر کے جملے ذرا عام ہوئے کسی نے محمود خان اچکزئی کی تقریر کے اس حصے کو نسلی منافرت سے تعبیر کیا تو کوئی اسے مرضی کی تاریخ کہتا رہا۔ کچھ صارف تاریخ کی کتاب سے دیگر ورق ڈھونڈ کر لائے تو کسی نے اس انداز بیان کے تسلسل پر تشویش کا اظہار کر ڈالا۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی محدود ریپلائز کے آپشن کے ساتھ ٹویٹ کیا تو لکھا ’آج اچکزئی نے واضح کر دیا کہ وہ افغانوں کے لیے بولتے ہیں‘۔ ساتھ ہی انہوں نے ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور دیگر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو لکھا ’مریم اینڈ کو کی جانب سے اہل پنجاب سے متعلق اس تبصرے پر خاموشی شرمناک ہے‘۔
 

پشاور سے تعلق رکھنے والے لحاظ علی نے محمود اچکزئی کے بیان کردہ تاریخی ورژن کو اپنے جواب سے چیلنج کیا تو کہا ’ہم نے افغانیوں کو نہیں۔۔۔۔بلکہ افغانیوں نے ہم پشتونوں کو 25 لاکھ سالانہ کے عوض 1893 میں گوروں کے ہاتھ بیچا تھا‘۔
 

تاریخ سے دیگر ورق تلاش کیے گئے تو ایک اور صارف نے لکھا ’حبیب اللہ نے برطانوی سفارتخانے کو ریشمی رومال تحریک کے سب کارکنوں کی لسٹ فراہم کی تھی جس کے بعد ان کو ننگے الف لوہے کے پنجروں میں رنگون بھیجا گیا تھا‘۔ْ
 

نجمہ منہاس بھی ایک تاریخی حوالے کے ساتھ گفتگو کا حصہ بنیں۔ انہوں نے لکھا ’محمود اچکزئی انیسویں صدی کی تاریخ بتاتے ہوئے افغان بادشاہ شاہ شجاع درانی کو بھول گئے جنہیں برطانویوں نے سربراہی دی تھی‘۔
 

کراچی سے تعلق رکھنے والی عفت حسن رضوی نے اپنے تبصرے میں تاریخ کے مختلف ورژنز کو زیربحث لانے کے بجائے مختلف نوعیت کا سوال اٹھایا تو لکھا ’کیا یہ جلسے پاکستان میں تعصبات کو ہوا دینے کے لیے ہیں؟ پاکستانیوں کو لتاڑنے انہیں تاریخی حوالوں سے شرم دلانے، انہیں زبان کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے لیے ہیں؟‘۔ انہوں نے پی ڈی ایم کو مخاطب کیا تو مزید لکھا ’اگر نہیں تو پی ڈی ایم محمود جان اچکزئی کی کراچی اور اب لاہور تقاریر کی مذمت کرے، وضاحت دے‘۔
 

میاں شہباز احمد نامی صارف نے جوابی سوال میں پوچھا کہ ’سچ میں تعصب کہاں؟ بات سچ کی گئی ہے‘۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ’پنجاب ہمیشہ سے حکومت بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ آج تک ایسا ہی ہوا ہے۔ کسی کی تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کریں‘۔
 

کچھ ایسے صارف بھی گفتگو کا حصہ بنے جنہوں نے محمود خان اچکزئی کی گفتگو کو ’لاہوریوں کی توہین‘ کہا تو ساتھ ہی مریم نواز شریف کے خاموش رہنے پر اعتراض بھی کیا۔
 

ٹیلی ویژن مبصر اور کالم نگار مشرف زیدی نے اچکزئی کی جانب سے سخت موقف اپنانے کے پس پردہ اسباب کی نشاندہی کی تو لکھا ’وہ ایسا کر کے خود کو متعلق رکھنے کی ضرورت پوری کر رہے‘۔

حیدر نامی ہینڈل نے نسلی تفریق کا باعث بننے والی زبان کی مذمت کی ضرور محسوس کی تو ساتھ ہی سوال کر ڈالا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں دیگر قوموں کو نیچا دکھانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟
 

پاکستانی سیاست میں گاہے اپوزیشن اور گاہے حکمراں جماعتوں کے ساتھ رہنے والے محمود خان اچکزئی کی تقریر اور اس پر آنے والے ردعمل نے ایک علمی اور تاریخی پہلو پر گفتگو کا موقع مہیا کیا تو اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم جلسے کی حاضری، اہم مقررین کی تقریروں اور حکومتی رہنماؤں کے ردعمل نے بھی سوشل ٹائم لائنز پر سیاسی گرمی پیدا کیے رکھی۔
اتوار کی شام سے رات دیر گئے تک سوشل میڈیا باالخصوص ٹوئٹر پر نصف درجن سے زائد ٹرینڈز پی ڈی ایم کے لاہور جلسے سے متعلق رہے۔

شیئر: