Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ: ’یہ استعفے نہیں لطیفے ہیں‘

وزرا نے وبائی صورتحال میں جلسہ کرنے والی اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے لاہور میں جلسے سے قبل منتظمین جہاں عوام کو شرکت پر آمادہ کر رہے ہیں وہیں وزرا اور حکومتی شخصیات کی جانب سے کہیں کورونا وبا، کہیں عوامی آرا اور کہیں دیگر حوالے دے کر جلسے کو آغاز سے قبل ہی ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کے جلسے سے متعلق حکومتی اعلانات اور اقتدار سے وابستہ شخصیات کے اس رویے کو کسی نے ’گڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ قرار دیا تو کسی نے ’کیرٹ اینڈ سٹک‘ کی حکمت عملی سے تعبیر کیا۔
وفاقی وزیر غلام سرور خان نے مقامی میڈیا سے کی گئی گفتگو میں اپوزیشن کو بات چیت سے مسائل حل کرنے کی دعوت دی تو ساتھ ہی واضح کیا کہ اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے رائے عامہ کے ایک جائزے سے متعلق ٹویٹ کی تو بتایا کہ ’ابھی بھی وقت ہے اپوزیشن ان عوام دشمن جلسوں کو بند کرے‘ ساتھ ہی کہا کہ 80 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کو جلسے نہیں کرنے چاہیں۔
 

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی نے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ایک گفتگو کا کلپ شیئر کیا تو ساتھ لکھا ’آخر کار سچ زبان پر آ ہی گیا، مگر ایک بات یاد رکھو جو بھی کر لو، چھوٹ نہیں ملے گی‘۔
 

اس ویڈیو کلپ میں مولانا فضل الرحمن کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’کیا ہم نے اس وقت اکٹھا ہونا ہے جب ہم سب جیلوں میں چلے جائیں گے۔‘
ایک روز قبل نیا منصب سنبھالنے والے وزیرداخلہ شیخ رشید نے الگ الگ ٹوئٹر پیغامات میں اپوزیشن کو مخاطب کیا تو کہا ’نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکلے گا۔ آر پار کے بجائے سیاسی کشتی منجدھار میں ڈوبے گی‘۔
 

وزیرداخلہ گزشتہ روز اپنی نیوز کانفرنس میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’پی ڈٰی ایم کے رنگ پسٹن بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے پلگوں میں کچرا پھنسا ہوا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے نوجوانان عثمان ڈار نے بھی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت کا ذکر کیا تو ساتھ ہی اس کی حدود متعین کرتے ہوئے کہا کہ ’این آر او کے علاوہ ہم ہر چیز پر بات کرتے کو تیار ہیں‘۔
 

پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے بھی اپوزیشن جلسے کو موضوع بنایا تو کورونا کا ذکر کرتے ہوئے خبر دی کہ ’سب سے زیادہ شرح اموات اُن شہروں میں ہےجہاں اپوزیشن  نے جلسے کیے‘۔
 

مذاکرات کی دعوت اور جلسوں کے نتائج سے خبردار کرنے والی حکومتی شخصیات کے ساتھ اقتدار کی راہداریوں سے کچھ ایسی آوازیں بھی آئیں جن میں اپوزیشن کی جانب سے استعفوں کے اقدام کو موضوع بنایا گیا۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن مستعفی ہونا چاہتی ہے تو ابھی ایسا کرے‘۔
 

پی ٹی آئی کے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے اپوزیشن کے بند گلی میں پھنسنے کی نوید سنائی تو لکھا کہ نہ استعفے دے سکتے ہیں اور نہ ہی این آر او مل سکتا ہے‘۔
 

ایک اور پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید خان نے بھی استعفوں کو موضوع بنایا تو لگے ہاتھوں اپوزیشن کو چیلنج بھی دے گئے۔ انہوں نے لکھا ’پی ڈی ایم کو چیلنج کرتے ہیں اگر استعفے دینے ہیں تو اگلے 24 گھنٹوں کےاندر اندر سپیکر کو دے دیں- پانچ منٹ میں سارے استعفے منظور کر لیے جائیں گے‘۔
 

حکومتی شخصیت نے اپوزیشن کی جانب سے استعفوں سے متعلق رویے کو ملی بھگت قرار دیا تو فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’یہ استعفے نہیں لطیفے ہیں‘۔

شیئر: