Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نیب کو بین الااقومی سطح پر ’بلیک لسٹ‘ کروایا جا سکتا ہے؟ 

’پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نیب عہدیداران کو سوال کر سکتے ہیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈووی والا نے کہا ہے کہ وہ قومی احتساب بیورو کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کریں گے اور اس کو عالمی فورمز سے بلیک لسٹ قرار دلوائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا اب مشن ہے کہ وہ نیب کی زیادتیوں کو منظر عام پر لائیں گے اور دنیا بھر میں اس کے خلاف وہ جس فورم پر بھی جا سکے، جائیں گے۔ 
لیکن کیا وہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اور واقعی نیب کو بین الااقوامی سطح پر بلیک لسٹ قرار دلوا سکتے ہیں؟ 
نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر نیب کو ہدفِ تنقید بنانے کے کئی راستے موجود ہیں لیکن اس پر پابندی لگوانا یا کوئی انتظامی کارروائی کروانا ممکن نہیں ہے۔    
’پاکستان نے اقوام متحدہ کے کئی چارٹرز پر دستخط کیے ہوئے ہیں جس کے تحت کرپٹ افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ اسی طرح اداروں کی غلط کاریوں کے خلاف رپورٹ بھی کی جا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی بین الااقوامی فورم کسی پاکستانی ادارے پر پابندی لگا دے۔‘ 
تاہم عرفان قادر کہتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ بذات خود سپریم کورٹ سے بڑا ادارہ ہے اور ماضی میں سینیئر جج اس کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ 
’سینیٹ کی کمیٹی صدر مملکت کو خط بھیج سکتی ہے کہ نیب چیئرمین کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ سلیم مانڈوی والا کے بیانات یا نیب کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے فوری طور پر اس ادارے کی انتظامیہ کی بد نامی ہو گی۔ 
’اگر ہم طویل المدتی اثرات کی بات کریں تو بالآخر بدعنوانی کے انسداد کے لیے تمام اداروں اور سٹیک ہولڈرز کی رضامندی سے ایک نئے ادارے یا ’نئے نیب‘ کا قیام ناگزیر ہو گا۔‘ 
عرفان قادر نے کہا کہ دنیا بھر میں بدعنوانی یا قانون کی خلاف ورزی پر پارلیمینٹیرینز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور کوئی عام سپاہی یہ کام کر سکتا ہے۔ لیکن وہاں قانون کی عملداری ہوتی ہے اور کوئی اہلکار یا ادارہ ثبوت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرتا۔  

’بین الااقوامی فورمز کسی قومی ادارے کو بلیک لسٹ نہیں کر سکتے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

ٹرانسپیرنسی کے حوالے سے کام کرنے والے عادل گیلانی کا خیال ہے کہ سلیم مانڈوی والا کے اقدامات سے نیب بلیک لسٹ تو نہیں ہو گا لیکن اس کے متعلق منفی تاثر ضرور قائم ہو جائے گا۔ 
’اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔ منفی تاثر قائم ہو گا کہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والا ادارہ خود درست کام نہیں کرتا۔ ایک سیکشن کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے۔ ان بیانات پر ایف اے ٹی ایف کوئی تبصرہ جاری کر سکتا ہے۔ ورلڈ بنک کچھ کہہ سکتا ہے یا ملک کو ملنے والے قرضوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘ 
عادل گیلانی کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف مقامی ادارے قوانین کے مطابق کارروائی کرتے ہیں لیکن کہیں پر بھی امتیازی رویہ نہیں برتا جاتا۔ 
نیب کے ساتھ کام کرنے والے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کہتے ہیں کہ نیب کے خلاف عالمی کارروائی دھمکی کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی فورم پاکستان کے کسی قومی ادارے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ 
’نیب کے خلاف پاکستان کی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ یہ ادارہ 'پولیٹیکل انجینیئرنگ کا ایک ہتھیار' ہے۔ اس کے طریقہ کار پر سب کو تحفظات ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر تنقید کرانے سے نیب کی کارروائی نہیں رکے گی۔‘ 

'اداروں کی غلط کاریاں رپورٹ کی جا سکتی ہیں لیکن کوئی بین الااقوامی فورم کسی پاکستانی ادارے پر پابندی لگا دے۔' فائل فوٹو: روئٹرز

عمران شفیق کہتے ہیں کہ پاکستان اور دوسری جمہوریتوں میں بد عنوانی کے خلاف کارروائی میں یہ فرق ہے کہ وہاں پر ادارے ثبوت کے بغیر کارروائی نہیں کرتے، گرفتار نہیں کرتے۔  
’انڈیا میں بھی بد عنوانی پر کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن وہاں الیکشن کمیشن آزاد ہے۔ عدالتیں وکٹامائزیشن کرنے میں حصہ دار نہیں بنتیں اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔‘ 
بین الااقوامی قانون پر نظر رکھنے والے خذ یمہ صدیقی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بیانات محض سیاسی دباؤ اور پراپیگنڈہ ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
’بین الااقوامی فورمز کسی قومی ادارے کو بلیک لسٹ نہیں کر سکتے چاہے الزام انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بیان جاری کر سکتے ہیں اور وہ بھی اتنی آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ اس سے پہلے چیئرمین نیب اور ان کے ادارے سے ان کا موقف معلوم کیا جائے گا۔‘ 
’پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نیب عہدیداران کو سوال کر سکتے ہیں اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سینیٹ کوئی قرارداد منظور کر سکتی ہے لیکن جب تک باقاعدہ قانون سازی نہیں ہوتی، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

شیئر: