Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب چیئرمین کے اختیارات، عدالت کا نوٹس

'کیا چیئرمین نیب آئین کے آرٹیکلز 240 اور 242 کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں؟' فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے تعیناتیوں کے اختیار کا ازخودنوٹس لیا ہے۔  
جعلی نیب افسر محمد ندیم کی ضمانت کے مقدمے کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا ہے کہ چیئرمین نیب تعیناتیوں کا اختیار رولز کے تحت ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
جمعے کو جاری کیے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت 1999 سے آج تک رولز نہیں بن سکے۔ کیا چیئرمین نیب آئین کے آرٹیکلز 240 اور 242 کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں؟  
عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور رجسٹرار آفس کو ازخود نوٹس الگ سے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
 عدالت نے نیب کے تمام ڈائریکٹر جنرل کی تقرری پر اٹارنی جنرل سے تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔
واضح رہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ میں نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔ بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں۔ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم نے نیب کے ڈی جی عرفان منگی بن کر مختلف افسران اور اہم شخصیات بن کر کالیں کیں۔ ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا جب کہ فرانزک کی ابھی تک رپورٹ نہیں آئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ محمد ندیم مڈل پاس ہیں ،بہاولپور سے وہ کیسے نیب افسر بن کر کال کرتے تھے۔ ملزم نے  پی ایس او کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو ڈی جی نیب بن کر کال کی۔ تفتیش کے مطابق ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے۔ ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبرز کیسے آگئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے سب عوام کے نوکر ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او سمیت 22 افراد کی مختلف شکایات ملیں۔ ایم ڈی پی ایس او نے ڈی جی نیب عرفان منگی سے رابطہ کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں موجود نیب کے ڈی جی عرفان منگی سے پوچھا کہ 'آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے اور کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں۔' جس پر عرفان منگی نے کہا کہ 'میں انجینیئر ہوں اور میری تنخواہ چار لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔ مجھے فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے اور نیب کیسے کام کررہا ہے۔ 'چیئرمین نیب کس قانون کے تحت بھرتیاں کرتے ہیں، چیئرمین نیب اب جج نہیں، انہیں ہم عدالت بلا سکتے ہیں۔ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے؟'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے سب عوام کے نوکر ہیں۔ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ ہم اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے ہمیں نیب کے لیے قانون کی کلاسز لگانا پڑیں گی۔ نیب کے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز بنائے ہی نہیں گئے قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ 'ہم سب ریاست کے ملازم ہیں۔ ہم سب نے مل کر قانون کی عملداری میں حائل قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے جب کہ قانون کا وقار بحال کیے بغیر قانون کی عملداری قائم نہیں ہو سکتی۔'
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نیب کے تمام ڈی جیز کی تقرریوں سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملزم محمد ندیم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی تھی۔

شیئر: