Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرنچ فرائز فیکٹری کے لیے7 کروڑ ریال کی منظوری

یہ منصوبہ ذاتی سرمایہ کاری بنیاد پر2021 کی پہلی سہ ماہی میں شروع ہوگا۔(فوٹوعرب نیوز)
الجوف ایگریکلچرل ڈیولپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرزنے رواں ہفتے سعودی عرب میں فرنچ فرائز فیکٹری کی تعمیر کیلئے 7 کروڑ ریال کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
عرب نیوز کے مطابق تداول کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کمپنی نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ ذاتی سرمایہ کاری  بنیاد پر2021 کی پہلی سہ ماہی میں شروع کیاجائے گا جو کہ2023 کی پہلی سہ ماہی میں مکمل ہوگا۔
سعودی عرب میں فاسٹ فوڈ آپشنز کی کمی نہیں۔ یہاں پر میکڈونلڈز، برگر کنگ اور ڈومینو  پیزا جیسی بڑی بین الاقوامی چینز کے علاوہ جان برگر، ہیمبرگنی اور لیٹس پیزا جیسی مقامی چینز بھی موجود ہیں۔

 عام افراد میں مٹاپہ اور ذیابیطس یہاں کی مارکیٹ کے لئے اہم خطرات ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

فوڈ لنکر کے مطابق سعودی غذائی خدمات کی مارکیٹ کے حوالے سے لگائے گئے تخمینے میں کہا گیا تھا کہ یہ 2019 میں 11.6ارب ڈالر سے بڑھ کر 2025 میں 13.7ارب ڈالر ہو جائے گی۔
اس پیشگوئی کی بنیاد پر  ترسیل کی خدمات میں تیز تر  ترقی، نوجوانوں اور کام کرنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور تلف پذیر یعنی ڈسپوزیبل آمدنی کی بڑھتی سطح ہے۔
تحقیق اور مارکیٹس نے اس دوران یہ پیشگوئی بھی کی ہے کہ سعودی فاسٹ فوڈ  انڈسٹری 2017 سے 2023 کے درمیانی عرصے میں سالانہ 6.9 فیصد کی شرح سے فروغ پائے گی۔

فاسٹ فوڈ مکمل طور پر ختم ہو جانے کےکوئی اسباب تاحال نظر نہیں آ رہے۔(فوٹو ٹوئٹر)

دونوں رپورٹس میں صحت کے حوالے سے خدشات میں اضافے کا ذکر بھی کیا  گیاہے جن میں کہا گیا ہے کہ مٹاپہ اور ذیابیطس یہاں کی مارکیٹ کے لئے اہم خطرات ہیں۔
ان رپورٹس میں کمپنیوں کے پورٹ فولیو میں صحت مند غذائیں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
2019میں محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب میں 40 فیصد سے زیادہ  افراد  مٹاپے کا شکار ہیں جبکہ سعودی  نوجوانوں کی19فیصد تعداد  ذیابیطس میں مبتلا ہے۔
قومی سطح  پر دو بڑی مہمات بھی شروع کی گئی تھیں مٹاپے سے لاحق خطرات کے حوالے سے آگہی میں اضافہ کیاجا سکے۔

 مملکت میں بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چینز کےعلاوہ مقامی چینز بھی موجود ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

شوگر کنسلٹنٹ نیز ذیابیطس کی سعودی سوسائٹی کے چیئر مین عبدالرحمان الشیخ نے 2019 میں بتایا تھا کہ مملکت میں مٹاپے اور ذیابیطس کی بلند شرح کے اسباب میں غیر صحت بخش غذائی عادات اور جسمانی ورزش میں کمی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم زیادہ وزن والے کیسز بھی اس شرح میں شامل کر دیں تو یہ شرح 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ طرززندگی میں بہتری اوردل کے امراض جو زیادہ تر ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس سے پیدا ہوتے ہیں یہ سب موت کے  اسباب  بھی بن چکے ہیں۔
مقامی برانڈز جن میں بوگا سپر فوڈز، گرینز اور یوگی ملک بھر کی فاسٹ فوڈ سے محبت اور غیر صحتمند آپشنز سے نمٹنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
یہ سلاد ، ہلکے سینڈوچزاور کم کیلوریز والے آپشنز پیش کرتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ سعودی باشندوںکو اپنے معمولات میں تبدیلی لانے اورفاسٹ فوڈ کا ’’فاسٹ‘‘ جزو برقرار رکھتے ہوئے صحت مند آپسنز آزمانے کی جانب راغب کرسکیں گے۔
سعودی عرب  میں سبزیوں کی خوراک  کی بڑھتی مقبولیت ان ریستوران کی شہرت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
کورونا وائرس کے معاشی اثرات کی وجہ سے چکنائی والے برگر اور آلو کے تلے ہوئے چپس کئی افراد کے لئے پرکشش اور سستی اور قابل رسائی خوراک بنی ہوئی ہیں۔
ان سب کے پیش نظر ایسے امکانات نظر نہیں آتے کہ فاسٹ فوڈ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ اس صورتحال نے آلو کے چپس بنانے کی  فیکٹری کے لئے اس فیلڈ میں وسیع مقام پیدا کر دیا ہے۔
 

شیئر: