Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اویغور خواتین اب بچے پیدا کرنے کی مشینیں نہیں رہیں‘

ٹوئٹر نے کہا ہے کہ اس پوسٹ سے ’رولز کی خلاف ورزی‘ ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ٹوئٹر نے امریکہ میں چین کے سفارتخانے کی طرف سے کی جانے والی ایک پوسٹ ہٹا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’اویغور خواتین کو شدت پسندی سے بچایا گیا ہے اور وہ اب بچے پیدا کرنے کی مشینیں نہیں رہیں۔‘
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق اس پوسٹ کے ساتھ ایک مضمون بھی تھا جس میں سینکیانگ میں زبردستی نس بندی کے الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
ٹوئٹر نے کہا ہے کہ اس پوسٹ سے ’رولز کی خلاف ورزی‘ ہوئی ہے لیکن اس حوالے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
پوسٹ میں چینی حکومت کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار چائنہ ڈیلی کا مضمون بھی پوسٹ کیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’تحقیق بتاتی ہے شدت پسندی کو ختم کرنے کے عمل میں سینکیانگ میں اویغور خواتین کی ذہن کو بدلا گیا، جنسی برابری اور انہیں بچے پیدا کرنے والی مشینیں بننے سے بچایا گیا۔ وہ اب زیادہ پر اعتماد اور آزاد ہیں۔‘
اس مضمون میں کہا گیا تھا کہ ریجن میں بچوں کی پیدائش میں کمی اور آبادی میں اضافے کو کم  کرنے کی وجہ مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانا ہے۔
’مغربی سکالرز اور سیاستدان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ خواتین کی جبری نس بندی کی جارہی لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘
امریکہ میں چینی ایمبیسی نے پوسٹ ڈیلیٹ ہونے کے بعد اسے دوبارہ مختلف انداز سے پوسٹ کیا۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ماورائے عدالت حراستی کیمپوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس میں کم از کم دس لاکھ افراد قید ہیں۔
چین نے سنکیانگ میں ایغوروں کو جبری مشقت پر مجبور کرنے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے تربیتی پروگرامز، روزگار کے سکیموں اور بہترین تعلیم کی وجہ سے خطے سے شدت پسندی کو ختم کر دیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ ٹریننگ سینٹرز ہیں جس میں شدت پسندی سے بچاؤ کی تربیت دی جاتی ہے۔

شیئر: