Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ: دہائیوں میں پہلی مرتبہ خاتون کو سزائے موت

مونٹگومیری نے 2004 میں ایک 23 سالہ حاملہ خاتون کو قتل کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں تقریباً سات دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کو انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دی گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو لیزا مونٹگو میری کی سزائے موت پر عمل درآمد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے آخری دنوں میں کیا گیا۔
52 سالہ لیزا مونٹگو میری نے قانونی جنگ بھی لڑی تھی تاہم سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم دیا۔
لیزا مونٹگو میری نے ایک بچے کو چرانے کی غرض سے ایک حاملہ خاتون کا قتل کیا تھا۔ انہوں نے ذہنی مریضہ کے طور پر سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کی کوشش بھی کی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 17 برس کے وقفے کے بعد گذشتہ برس جولائی میں سزائے موت کی بحالی کے بعد وہ گیارہویں فرد ہیں جن کو سزائے موت دی گئی۔
مونٹگو میری کی وکیل کیلی ہینری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’1953 کے بعد پہلی خاتون کو سزائے موت دی گئی۔ یہ فیصلہ ظالمانہ، غیرقانوی اور آمرانہ طاقت کا غیر ضروری استعمال ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مونٹگو میری کی سزائے موت میں حصہ لینے والوں کو شرمندگی محسوس کرنی چاہیے۔‘
مونٹگو میری کے وکیلوں نے ان کے جرم کی سنگینی سے انکار نہیں کیا۔ وہ خود بچہ پیدا کرنے کی قابل نہیں تھی، انہوں نے 2004 میں ایک 23 حاملہ خاتون کو قتل کیا تھا۔

17 برس بعد گذشتہ برس سے امریکہ میں سزائے موت پر عمل درآمد جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بوبی سٹینیٹ نامی خاتون کا گلہ گھونٹا اور اس کے جسم سے بچہ کاٹ کر الگ کیا تھا، بچہ زندہ بچ گیا تھا۔ 2007 میں انہیں اغوا اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
مونٹگو میری کے وکلا کا کہنا ہے کہ ’بچن میں جنسی زیادتی کے بعد وہ شدید ذہنی اذیت کا شکار رہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سزائے موت کے حامی ہیں، انہوں مونٹگو میری کے حامیوں کی جانب سے معافی کی درخواست کو نظر انداز کیا۔
ڈیموکریٹک سینیٹر ڈک ڈربن نے پیر کو سزائے موت کے خاتمے کے لیے قانون سازی متعارف کرنے کا اعلان کیا۔
توقع کی جارہی ہے کہ اگلے ہفتے نومنتخب صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ قانون منظور کیا جا سکے گا۔
 

شیئر: