Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیجیٹل کرنسی یا بِٹ کوئن کی دوڑ میں اِس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ 

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین کو ممنوع قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ورچوئل یا کرپٹو کرنسی جس میں بِٹ کوئن سب سے بڑے برینڈ کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں روایتی کرنسی کے متبادل کے طور پر اسے قانونی حیثیت بھی دی گئی ہے۔ 
پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین کو ممنوع تو قرار دیا ہے لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ 
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں بتایا ہے کہ 'سٹیٹ بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے لین دین کو کبھی غیر قانونی نہیں قرار دیا گیا۔'

 

تاہم وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق 'پاکستان میں متعدد کمپنیاں کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے منسلک ہیں لیکن واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد انٹرنیٹ صارفین کو کرپٹو کرنسی کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں، اس لیے حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔' 
ترجمان سٹیٹ بینک آف پاکستان عابد قمر کے مطابق ’کرپٹو کرنسی کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہونے کی وجہ سے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘ 
 تاہم وزارت خزانہ کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو فریم ورک تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے اور سٹیٹ بینک کے 2025 کے اہداف میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کی پالیسی شامل ہے۔‘ 
ڈیجیٹل کرنسی یا کرپٹو کرنسی ہے کیا؟
روایتی کرنسی کے متبادل کے طور پر جاپان نے سنہ 2009 میں کرپٹو کرنسی متعارف کروائی جس کا مقصد آپ کا اثاثہ کسی حکومت یا ادارے کے دائرہ اختیار سے باہر نکالنا تھا۔

پاکستان میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے تاحال کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آ سکی (فوٹو: اے ایف پی)

بٹ کوائن کو ڈیجیٹل گولڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جس کی کسی بھی بینک کے بغیر دو گروپس یا افراد کے درمیان بلاک چین کے ذریعے ترسیل کی جاتی ہے۔  
روایتی کرنسی کا تمام ریکارڈ مرکزی بینک اور اس کی ترسیل بینک کی اجازت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی کا معاملہ لینے اور دینے والے کے درمیان ہی رہتا ہے۔  
روایتی کرنسی کے برعکس بٹ کوئن کی کوئی ٹھوس شکل یا فزیکل حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اس کی شکل کمپیوٹر میں صرف ڈیٹا کی حد تک محدود ہے۔ 
روایتی کرنسی کے برعکس ڈیجیٹل کرنسی کو جعلی طور پر نہیں بنایا جا سکتا۔  
پاکستان میں ورچوئل کرنسی کے لیے قانون سازی میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ 
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 'ورچوئل یا کرپٹو کرنسی سے متعلق پالیسی زیر غور تو ضرور ہے لیکن چند وجوہات کی بنا پر فوری طور پر ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے معاملات زیر التوا ہیں۔'

ماہرین کے مطابق کرپٹو کرنسی سے منی لانڈرنگ کے خدشات بڑھ جاتے ہیں لہٰذا اسے قانونی قرار دینا اتنا آسان نہ ہوگا (فوٹو: پِکسابے)

’پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سخت نگرانی میں ہے اور کرپٹو کرنسی کی ٹریل جاننا ایک مشکل عمل ہے۔ اس لیے جب تک ایک مربوط نظام مرتب نہ کر لیا جائے ہمارے لیے اسے اپنانا ایک مشکل عمل ضرور ہوگا لیکن سٹیٹ بینک کے 2025 تک کے اہداف میں ڈیجیٹل کرنسی کا فروغ شامل ہے۔‘  
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترجمان کا ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کہنا ہے کہ 'دنیا بھر میں اس وقت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جار ہے ہیں۔ اس وقت کوشش کی جارہی ہے کہ ادائیگیوں کے ڈیجیٹل نظام کی طرف لوگ آئیں لیکن کرپٹو کرنسی کے حوالے سے تو اب بھی شکوک و شبہات موجود ہیں، ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کے بعد اگلا مرحلہ کرپٹو کرنسی کا ہے لیکن ابھی اس میں کافی وقت درکار ہے۔‘  

 حکام وزارت خزانہ کے مطابق سٹیٹ بینک کے 2025 کے اہداف میں ڈیجیٹل کرنسی کی پالیسی شامل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عزیر راؤ سنہ 2010 سے 2016 تک پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ورچوئل کرنسی قانونی ہے نہ غیر قانونی، کیونکہ اس حوالے سے ابھی تک سٹیٹ بینک کی کوئی واضح پالیسی ہی موجود نہیں۔‘  
عزیر راؤ سمجھتے ہیں کہ 'ڈیجیٹل کرنسی کا مقصد اثاثے کو کسی بھی اتھارٹی کے کنٹرول سے باہر لا کر ایک آزاد مالی نظام متعارف کرانا ہے۔' ’ڈیجیٹل کرنسی کے تحت بینک اور حکومت کا دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے اور تمام ٹرانزیکشن آن لائن ہوتی ہے اور کسی کے نام کے بجائے ایک مخصوص نمبر کے ذریعے لین دین کیا جاتا ہے۔‘  
ڈیجیٹل کرنسی کی پالیسی کے فوائد کیا ہوں گے؟ 
ڈیجیٹل کرنسی کے ماہر عزیر راؤ کہتے ہیں کہ ’کرپٹو کرنسی کو براہ راست طریقے سے ٹریس نہیں کیا جاسکتا، اس لیے منی لانڈرنگ کے خدشات بڑھ جاتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک جہاں منی لانڈرنگ ایک سنگین مسئلہ ہے وہاں ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی قرار دینا اتنا آسان نہ ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا دھن سفید کرنے والے افراد اب بھی پاکستان میں اربوں روپے کا لین دین بٹ کوئن کے ذریعے کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 ’اس وقت ایک بٹ کوئن 30 ہزار ڈالرز سے زیادہ مالیت کا ہے اور کالا دھن سفید کرنے والے افراد اب بھی پاکستان میں اربوں روپے کا لین دین بٹ کوئن کے ذریعے کر رہے ہیں۔‘   
انہوں نے کہا کہ 'اس کو قانونی قرار دینے سے بٹ کوائن کی کرنسی پاکستان میں کسی اتھارٹی کے ماتحت براہ راست تو نہیں آسکتی لیکن جو کمپنیاں پاکستان میں بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک ہوں گی ان پر ٹیکس اور ڈیٹا کی شرط عائد کر کے بٹ کوائن خریدنے والے کا ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ابھی اس کا غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک کراچی کے حارث بیگ کہتے ہیں کہ ’بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کو اگر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو پاکستان میں سرمایہ کاری آنے کے ساتھ ساتھ سونے کی اجارہ داری بھی کم ہو جائے گی۔'

ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے پہلے سے تیاری شروع کی جانی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

'جیسے جیسے دنیا اسے تسلیم کرے گی پاکستان کو بھی تسلیم کرنا ہوگا اس لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے پہلے سے تیاری شروع کر دی جائے۔‘  
حارث بیگ کے مطابق ’پاکستان کے پاس اس وقت وسائل موجود نہیں جس کی وجہ سے اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکتی، اس کو سمجھنے اور پالیسی مرتب کرنے کے لیے ڈیجیٹل کرنسی کے ماہرین درکار ہیں جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں بھی محدود تعداد میں ہیں۔'

شیئر: