Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ کورونا کا آغاز چین سے ہوا‘

ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ٹیم 14 جنوری کو چین کے شہر ووہان پہنچی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ’ووہان میں بھیجے گئے اپنے مشن سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا کوویڈ۔19 وبا کا آغاز چین سے ہی ہوا۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ایک ٹیم وسطی چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے ایک برس بعد اس وبا کے آغاز کی تحقیقات کے لیے 14 جنوری کو چین پہنچی تھی۔
ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ ’تمام مفروضے ہمارے سامنے ہیں، اور یقینی طور پر کسی نتیجے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ وائرس چین کے اندر یا اس کے باہر شروع ہوا تھا۔ 
مزید پڑھیں     
جنیوا میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف سائنسی مشاہدات ہیں۔ ان میں سے یہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک منظر بناتا ہے۔‘   
یہ مشن طویل عرصے سے تاخیر کا شکار تھا اور اس کی بنیادی وجہ چین کی جانب سے دیر سے ملنے والا اجازت نامہ تھا۔
چین پہنچنے کے بعد عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کو دو ہفتے کا قرنطینہ مکمل کرنے کے لیے ایک ہوٹل میں رکھا گیا ہے۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این نے بتایا کہ ’کورونا وائرس پھیلنے کے مقام کا سراغ لگانے کے لیے کیا جانے والا یہ دورہ کئی ہفتے جاری رہے گا۔‘
اس سے قبل چین نے کہا تھا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ٹیم کے ذریعے کورونا وائرس کی ابتدا سے متعلق تحقیقات کے لیے تیار ہے۔ یاد رہے کہ بیجنگ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدا اس کی سرحدوں سے باہر ہوئی ہے۔
چینی حکام کے مطابق ’عالمی ادارہ صحت کے 10 سائنس دانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ چین آکر اس بات کا سراغ لگائیں کہ کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی۔‘
کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے ایک آزاد پینل کہہ چکا ہے کہ ’چینی حکام جنوری 2020 میں کورونا وائرس کی وبا روکنے کے لیے صحت عامہ سے متعلق مزید سخت اقدامات کر سکتے تھے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آزاد پینل کے ماہرین نے پیر کو عالمی ادارہ صحت پر بھی تنقید کی کہ ’اس نے 30 جنوری 2020 تک بین الاقوامی ہنگامی صورت حال کا اعلان نہیں کیا تھا۔‘
یاد رہے کہ کورونا وائرس کے آغاز کے حوالے سے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کو سخت تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
کورونا وائرس کے بارے میں گُمان یہ کیا جاتا ہے کہ یہ 2019 میں چین کے شہر ووہان کی ایک ایسی مارکیٹ سے پھیلا جہاں زندہ جنگلی جانور فروخت کیے جاتے تھے، اس کے علاوہ چین پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ وائرس ووہان کی ایک خفیہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔
اس حوالے سے جب صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولوجی میں ہی اس وائرس کو تیار کیا گیا ہے پر ان کا کہنا تھا 'جی ہاں۔'
سابق صدر ٹرمپ نے بار بار چین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا اور ان کا کہنا تھا کہ 'اس کا مقصد انہیں صدارتی انتخاب میں شکست سے دوچار کرنا ہے۔'
قبل ازیں عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کو چین میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے کہ چین نے ابھی تک بین الاقوامی ماہرین کو اس علاقے تک رسائی کی اجازت نہیں دی جہاں سے کورونا وائرس نے سر اٹھایا تھا۔‘

شیئر: