Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈینیئل پرل قتل کیس، سپریم کورٹ سے عمر شیخ کی رہائی

امریکی صحافی کو سنہ 2002 میں کراچی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت کی اپیلیں خارج کر دی ہیں۔  
جمعرات کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کے ملزمان کے رہائی کے خلاف سندھ حکومت کی اپیلوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے حساس معلومات سربمہر لفافے میں عدالت کو دیتے ہوئے کہا کہ ’احمد عمر شیخ کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں۔ شواہد موجود ہیں لیکن ایسے نہیں کہ عدالت میں ثابت کر سکیں۔ ریاست کے خلاف جنگ کرنے والا ملک دشمن ہوتا ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جو مواد سپریم کورٹ کو دیا وہ پہلے کسی فورم پر پیش نہیں ہوا۔ جو معلومات کبھی ریکارڈ پر نہیں آئیں ان کا جائزہ کیسے لیں؟ ریاست کے پاس معلومات تھیں تو احمد عمر شیخ کے خلاف ملک دشمنی کا کیس کیوں نہیں چلایا؟‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت نے احمد عمر شیخ کو کبھی دشمن ایجنٹ قرار ہی نہیں دیا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ جنگ کب ختم ہوگی کوئی نہیں جانتا۔ شاید آئندہ نسلوں تک چلے، ریاست کا اپنے شہریوں کو ملک دشمن قرار دینا بھی خطرناک ہے۔‘ 
اپریل 2020 میں سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈِینیل پرل قتل کیس میں مقدمے میں نامزد احمد عمر شیخ کے علاوہ باقی تینوں ملزمان کو عدم شواہد پر بری کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اپنے اختارات کے تحت ملزمان کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے نے کیس کا اٹھارہ سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ڈینیل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہو سکا ہے جبکہ ایک ملزم احمد عمر شیخ پر اغوا کا الزام ثابت ہوا ہے۔ جس پر احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کیا گیا۔

احمد عمر سعید شیخ پر ڈینیئل پرل کے اغوا کا جرم ثابت ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ٹرائل کورٹ نے برطانوی شہریت رکھنے والے ملزم احمد عمر شیخ کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ ملزم فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
سندھ حکومت نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس کیس میں ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی فریق بننے کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ان سے ہمدردی ہے تاہم فیصلہ قانون اور شواہد کی روشنی میں ہوگا۔
یاد رہے ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 15 جولائی 2002 کو سزائیں سنائی تھیں۔ ڈینیئل پرل کے اغوا کے کچھ عرصے بعد کراچی میں تعینات امریکی سفارتی اہل کاروں کو ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی جس میں نامعلوم افراد کو ڈینیئل پرل کا قتل کرتے دکھایا گیا تھا۔ بعد ازاں ملزمان کی نشاندہی کے بعد ان کی لاش ایک قبر سے برآمد کی گئی تھی۔

شیئر: