Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق میں ’’دہشت گردی‘‘ کے 5 مجرموں کو پھانسی

مجرموں کو سزائے موت کے 340 سے زیادہ احکامات موجود ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)
جنوبی عراق کی بدنام زمانہ ناصریہ جیل میں "دہشت گردی" کے الزام میں سزاپانے والے 5افراد کو منگل کے روز پھانسی پر لٹکا دیاگیا۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق عراقی  سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عراق میں پھانسی سے متعلق موجودریکارڈ پر حالیہ مہینوں میں بین الاقوامی سطح پربرہمی کا اظہار کیا گیا تھا اس کے باوجود مزید5مجرموں کو سولی چڑھا دیا گیا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبہ دھیقار کی ناصریہ جیل میں جن پانچ مجرموں کو پھانسی دی گئی وہ  تمام عراقی تھے ۔ واضح رہے کہ دھیقار عراق کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔

سزائے موت کی زیادہ تر منظوریاں برھام صالح کے صدر بننے سے پہلے کی ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)

عراقی باشندے ناصریہ جیل سے خوفزدہ ہوکر اسے’’الحوت ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ’’وھیل‘‘  بڑی مچھلی کے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ناصریہ میں قائم یہ ایک ایسا وسیع جیل کمپلیکس ہے جو لوگوں کو’’ نگل‘‘ جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسے وھیل کا نام دیا گیا ہے۔
2005 کے ایک قانون کے مطابق ’’دہشت گردی‘‘کا مجرم قرار دیئے جانے والے ہر شخص کو  یہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔
اس قانون کے تحت کوئی ملزم خواہ دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث نہ پایا گیا ہوالبتہ وہ کسی شدت پسند گروپ کی رکنیت کا حامل ہو، اسے بھی سزا دی جا سکتی ہے۔
2017 کے آخر میں داعش کو شکست دینے کے اعلان کے بعد عراق میں جہادی گروپ کی رکنیت رکھنے والے سیکڑوں شہریوں کو موت کی سزادی جا چکی ہے لیکن موت کی ان سزاؤں پرعملدرآمد کا تناسب بہت کم ہے کیونکہ کسی مجرم کو پھانسی دینے کے لئے ملک کے صدر کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

دہشت گردی‘‘کے ہرمجرم کو دھیقار کی ناصریہ جیل میں سزائے موت دی جاتی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

موجودہ  دور میں عراق کے صدر برھام صالح ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہیں۔
گزشتہ ماہ عراقی حکام نے انکشاف کیا تھاکہ ان کے پاس "دہشت گردی یا مجرمانہ کاروائیوں" کے مجرموں کو سزائے موت کے 340 سے زیادہ احکامات موجود ہیں جن پر عملدرآمد کی تیاری کی جا چکی ہے۔
صدارتی ذرائع نے بتایا کہ سزائے موت کی زیادہ تر منظوریاں برھام صالح کے صدر بننے سے پہلے کی ہیں۔
منگل کو پھانسی پانے والا رواں سال کا یہ دوسرا گروپ ہے۔ اس سے قبل جنوری کے آخر میں ناصریہ میں "دہشت گردی" کے 3مجرموں کو پھانسی دی گئی تھی۔

عراقی باشندے ناصریہ جیل سے خوفزدہ ہوکر اسے’’الحوت ‘‘ کہتے ہیں۔(فوٹومڈل ایسٹ آئی)

جنوری میں دی جانیوالی پھانسی ، بغداد پر جڑواں خودکش حملوں کے کچھ ہی دن بعد دی گئی تھی ۔ ان حملوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہوئے تھے جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
عراقی عدالتوں کی جانب سے داعش کی رکنیت کے حامل غیر ملکی شہریوں کو بھی موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جن میں 11 فرانسیسی اور بلجیئم کا ایک شہری شامل ہے ۔ اب تک ان میں سے کسی کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
پچھلے سال جن افراد کو پھانسی دی گئی ان میں دہشت گردی کے 21ملزم شامل تھے جو مجرم قرار پائے  ۔ انہیں نومبر 2020میں ناصریہ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
ان پھانسیوں پر اقوام متحدہ کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ اس نے اس خبر کو "گہری پریشانی" قرار دیا اور عراق سے مطالبہ کیا کہ وہ سزائے موت کے کسی مزید منصوبے پر عملدرآمد روک دے۔
حقوق انسانی کے دوسرے گروپوں نے واقعاتی ثبوتوں پر علانیہ مقدمات چلانے اور ملزمان کو مناسب دفاع کی اجازت دینے میں ناکام رہنے پر عراقی نظام عدل پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا۔
وکلا نے کہا ہے کہ ملک کے عوام جو اب بھی داعش کی جانب سے دی گئی اذیت کا شکار ہیں، ہمیں خدشہ ہے کہ عراق ان پھانسیوں کوسیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کر نے کی کوشش کرسکتا ہے۔
جنوری میں داعش کے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے پھانسیوں کے مطالبات کئے جا رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نےانتہائی نرمی برتنے پر برھام صالح پر تنقید کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی محقق بلقیس ولی نے پچھلے مہینے کہا تھا کہ عراقی رہنما اکثرگروپ کی پھانسی کے اعلانات کا سہارا لے کر لوگوں کو یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ عام شہریوں پر کئے جانے والے حملوں کوانتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سزائے موت کسی بھی چیز سے زیادہ ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
 

شیئر: