Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں دو مقامات سے یورینیم کے ذرات کا سراغ مل گیا: خبر ایجنسی

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اپنے پارٹنرز کے ساتھ کام کریں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے سفارتکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ایران میں جوہری توانائی سے متعلق کام کرنے والے دو مقامات پر یورینیم کے ذرات ملے ہیں۔
اگرچہ ان دونوں مقامات کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ تقریباً دو دہائیوں سے غیر فعال ہیں تاہم اسرائیل سمیت جوہری معاہدے کے مخالف ممالک کا کہنا ہے کہ یہ غیراعلانیہ جوہری سرگرمی کا ثبوت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے ارادے اچھے نہیں ہیں۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے لیے ایران کے سفیر کاظم غریب آبادی نے بھی آئی اے ای اے کی طرح اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک سینیئر ایرانی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے معائنہ کاروں کو ان مقامات تک رسائی دی۔‘
ایران نے ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اٹھانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو آئندہ ہفتے تک کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے بصورت دیگر وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجسنی کے معائنہ کاروں کواپنے جوہری پلانٹس کا معائنہ نہیں کرنے دے گا۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ امریکہ ایران کی خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔
عرب نیوز کے مطابق میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ تہران کے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ساتھ دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔

انٹرنیشنل اٹومک انرجی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ایران میں جوہری توانائی سے متعلق کام کرنے والے دو مقامات پر یورینیم کے ذرات ملے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بائیڈن نے کہا کہ ’ہم ایران کی مشرق وسطی کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی سرگرمیوں کے حوالے سے ضرور بات کریں گے، ہم یورپی اور دیگر پارٹنرز کے ساتھ کام کریں گے۔‘
اس سے قبل ان کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
سعودی سیاسی تجزیہ کار حمدان الشہری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاملے پر ایک ’خاموش‘ معاہدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’دراصل، ہم آج یہ دیکھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ نرم مزاج اپنائے ہوئے ہے اور اپنے اتحادیوں پر دباؤ نہیں ڈال رہا۔‘
الشہری نے مزید کہا کہ موجودہ امریکی انتظامیہ وہی غلطیاں دہرا رہی ہے جو اوباما انتظامیہ سے سرزد ہوئی تھیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان قائم اعتبار میں کمی کا باعث بنے گا۔

ایران نے ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اٹھانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو آئندہ ہفتے تک کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’اس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی کیونکہ کوئی بھی ملک ایران کو اس وقت تک جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں دیکھنا چاہے گا جب تک کہ خود اس کے پاس بھی یہ ہتھیار نہ ہوں۔‘
الشہری نے بتایا کہ ’سعودی عرب پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اگر ایران نیوکلیئر بم بنائے گا تو وہ اگلے ہی دن اسی رستے کا انتخاب کرے گا۔‘
الشہری نے امریکہ میں ایرانی سفارتکاروں کے داخلے پر عائد پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر بھی تنقید کی، یہ پابندی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی تھی۔ انہوں نے واشنگٹن کی دہشتگر تنظیموں کی فہرست سے حوثی ملیشیا کا نام نکالنے پر بھی اعتراض کیا۔

شیئر: