سب سے پہلے تو ایک بات واضح ہے کہ اس دفعہ نادیدہ قوتوں، خفیہ ہاتھ اور خلائی مخلوق ٹائپ مداخلت کے اشارے نہیں مل رہے۔
ان اشاروں کی عدم موجودگی کا مطلب کھلا میدان ہے۔ اس کھلے میدان میں روایتی سیاستدانوں کو کُھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہے۔
اس کا فوری نتیجہ پنجاب میں سامنے آیا ہے جہاں پر چوہدری برادران کی موقع شناسی اور معاملہ فہمی سے تمام نشستیں بلا مقابلہ ہوگئی ہیں۔ اس سے ایک بار پھر ق لیگ اور چوہدری پرویز الہٰی کا سیاسی سکہ چلنا شروع ہو گیا ہے اور حسب روایت اور حسب توقع وزیر اعلی عثمان بزدار بارہویں کھلاڑی ثابت ہو ئے ہیں۔
پنجاب فارمولا کے بعد اسلام آباد کی سیٹ پر الیکشن کے حوالے سے کافی چہ مگوئیاں شروع ہوں گئی ہیں۔ اگر پی پی پی نے کم ہی سہی مگر چند ووٹ قربان کیے ہیں اور ن لیگ نے بھی ساتھ نبھایا ہے تو اس کا کوئی صلہ تو ضرور ہو گا۔
کیا ق لیگ حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے بھی وفاق میں دوسری طرف جانے کا سوچ رہی ہے؟ یہ ایک اہم اور فیصلہ کن سیاسی قدم بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے سندھ میں ایم کیو ایم کو دو سیٹیں آفر کر کے مخمصے میں ڈال دیا ہے جبکہ فیصل سبزواری نے بھی پنجاب ماڈل کے طرز پر سندھ میں ایڈجسمنٹ کا راستہ کھلنے کا اشارہ دے دیا ہے۔
ق لیگ اور پی پی پی نے ہمیشہ سیاسی مفاہمت کی بات کی ہے مگر باقی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے انتہائی پوزیشن ہی لے رکھی ہے۔ ن لیگ خصوصاً ووٹ کی عزت پر استعفے دینے کو تیار ہے مگر اسی ن لیگ نے اپنے گڑھ پنجاب میں حکومتی جماعتوں کے ساتھ مک مکا بھی کر لیا ہے۔
اس مک مکا سے آئندہ مستقبل کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ آگے بھی ایڈجسمنٹ جس کو ڈیل بھی کہا جا سکتا ہے، کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اس طرح کے مک مکا سے مریم نواز کی پوزیشن اور بیانیہ دونوں ہی کمزور ہوں گے ۔ جیسے جیسے مفاہمت کے امکان بڑھیں گے ویسے ویسے پارٹی کا اولڈ گارڈ اپنی کم ہوتی ہوئی جگہ واپس لے گا۔
پی ٹی آئی کے لیے اس کھلے میدان اور مک مکا میں سب سے زیادہ چیلنج ہے۔ کھلے میدان کا عملی اثر ضمنی انتخابات میں نظر آیا ہے جہاں حکومت کی سیاسی اور انتظامی ساکھ کو کافی جھٹکے لگے ہیں۔
اب اگر اسی طرح جوڑ توڑ چلتا رہا تو ایک طرف ’این آر او‘ نہیں دوں گا کا بیانیہ متاثر ہو گا دوسری طرف سینیٹ میں سنجرانی ماڈل ہی جاری رہے گا۔
ابھی تک بظاہر حفیظ شیخ بمقابلہ یوسف رضا گیلانی میں توقعات کے برعکس نتینجے کا امکان نہیں مگر اگر چاروں صوبوں میں جوڑ توڑ روایتی سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہی رہا تو آگے قانون سازی میں بھی حکومت بدستور انہی پر منحصر رہے گی۔
اسی لیے حکومت نے اپنا تمام وزن اوپن بیلٹ کے حق میں ڈال رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر حکومت کے لیے چیلنج اور اپوزیشن کے لیے امید ہے اور سینیٹ کے بعد پنجاب کا میدان بھی گرم ہو سکتا ہے۔