Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی کی طرح ’ووٹ بیچنے والوں‘ کے خلاف کارروائی ہو گی؟

سینیٹ میں اپنے امیدوار کی شکست کے بعد حکومت نے پہلے نتائج کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: وزیراعظم ہاؤس)
ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت رکھنے کے باوجود سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر پی ٹی آئی امیدوار کو شکست ہوئی تو پہلے حکومت نے نتیجہ چیلنج کرنے کا اعلان کیا مگر بعد میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیاسی میدان کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتے حکومتی موقف نے سوشل میڈیا کو تبصروں کا موقع دیا تو جہاں سیاسی مخالفین تنقید کرتے رہے، وہیں حکومتی حامیوں نے توقع ظاہر کی کہ سینیٹ الیکشنز 2018 میں ووٹ بیچنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی جیسا کچھ اقدام اس مرتبہ بھی ہو گا۔ البتہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ وزیراعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے تو صارفین کی گفتگو نیا رخ اختیار کر گئی۔
سوال کیا گیا کہ وزیراعظم ایک روز قبل اپنے امیدوار کو ووٹ نہ دینے والے ارکان سمیت دیگر پر مشتمل ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے تو کیا پارٹی لائن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ماضی کی طرح کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی؟
عمران خان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لیے جانے کو جہاں وزیراعظم کے حامی ’بولڈ سٹیپ‘ قرار دیتے ہوئے اسے ان کی بہادری سے تعبیر کرتے رہے تو وہیں سیاسی مخالفین یہ کہتے پائے گئے کہ جن امیدواروں نے وزیراعظم کی براہ راست مہم کے باوجود ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا اب انہی سے اعتماد کا ووٹ لینا وزیراعظم کے موقف کی شکست ہے۔
 

گزشتہ روز سینیٹ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اگلے چند گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر 10 سے زائد ایسے ٹرینڈز بنے جن میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے حامی اپنی اپنی قیادت کا موقف درست ثابت کرتے ہوئے دوسروں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ اس دوران گفتگو کے شرکا ووٹ نہ دینے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی اور انہی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو بھی ذکر کرنا نہ بھولے۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد حکومتی جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے ووٹ خریدے جانے کے الزامات کا حوالہ دیا تو حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’پی ٹی آئی نتائج چیلنج کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نہیں گئی‘۔
بدھ کے روز سینیٹ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ حکومت نتائج کو چیلنج کرے گی۔
 

ٹیلی ویژن میزبان اور تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے ووٹ نہ دینے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے متعلق دعوی کیا تو لکھا ’اگر وہ ان کے خلاف کارروائی کرتے تو حکومت نہیں رہ سکتی اسی لیے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا ہے‘۔

سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر حکومتی حامیوں نے سینیٹ الیکشن 2018 میں پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہ دینے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی کیا جانا چاہیے۔ وزیراطلاعات شبلی فراز کا ایک بیان بھی سامنے آیا کہ ووٹ نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ البتہ جب ایسا نہ ہو سکا تو مختلف صارفین کہیں اطلاع کی صورت اور کہیں طنزا اس فرق کی نشاندہی کرتے دکھائی دہے۔
 

سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدوار کو ووٹ نہ دینے والوں سے اعتماد کا ووٹ لینے کا معاملہ وزیراعظم کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ چڑھا تو جہاں وزیراعظم کی کامیابی کی توقع ظاہر کی گئی وہیں کل اور آج کی صورتحال میں موجود فرق کی نشاندہی بھی کی گئی۔

سینیٹ انتخابات میں پارٹی امیدوار کو ووٹ نہ دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہونے یا نہ ہونے کے نتائج کا ذکر ہوا تو صارفین اسے وزیراعظم کے سیاسی مستقبل سے جوڑتے دکھائی دیے۔
 

حکومتی حامیوں اور مخالف صارفین کے درمیان گفتگو یا سیاسی مبصرین کے تجزیوں سے قطع نظر وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی پرامید رہے کہ ’کپتا ہر چیلنج سے کامیاب نکلے گا‘۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے سینیٹ انتخابات کے دوران ووٹوں کی خریدوفروخت کے معاملے پر تبصرہ کیا تو لکھا ’وزیراعظم عمران خان کا مقابلہ مافیاز اور ضمیر ڈیلرز نہیں کر سکتے‘۔
 

یاد رہے کہ بدھ کے روز پاکستان میں ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں منعقدہ انتخابات کے دوران اسلام آباد کی نشست پر اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نمبر گیم میں کم ارکان کی حمایت رکھنے کے باوجود فاتح جب کہ حکومتی اتحاد کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ بظاہر زیادہ ارکان اسمبلی کی حمایت کے باوجود ناکام رہے تھے۔

شیئر: