Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں اضافہ، کمپیوٹر پارٹس کی قیمتیں دُگنی

گرافکس کارڈز کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ مارکیٹ میں نایاب ہوچکے ہیں (فوٹو: آئی جی این)
کرپٹو کرنسی کے حوالے سے عالمی ممالک کی متضاد رائے ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اس کے لین دین کو غیر قانونی قرار دیا ہے، البتہ پھر بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بِٹ کوائن اور دیگر کرنسیوں کی مائننگ کی جارہی ہے۔
اس کے نتیجے میں کمپیوٹر پارٹس بالخصوص گرافِکس کارڈز کی قیمت دگنی ہوگئی ہے اور یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔
اگر آپ ایک اچھا کمپیوٹر خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ایڈ-ان-بورڈ (اے آئی بی) کارڈ لگا ہو، تو قوی امکان ہے کہ آپ کو مایوسی ہوگی اور دکاندار یہی بتائے گا کہ یہ کارڈز دستیاب نہیں۔ اور اگر کسی کے پاس مہیا ہو بھی جائیں تو ان کی قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے۔

 

کراچی کی مشہور کمپیوٹر مارکیٹ ناز پلازہ میں دکاندار عارف انصار نے اردو نیوز کو بتایا کہ 2017 کے بعد سے کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس پروسیس میں اے آئی بی کارڈز استعمال ہوتے ہیں جنہیں حرف عام میں گرافِکس کارڈ کہا جاتا ہے۔
ان کارڈز کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ مارکیٹ میں نایاب ہوچکے ہیں، ان کے پاس بھی محض چند ہی کارڈز موجود ہیں، اور وہ بھی انہیں دگنی قیمت پر مہیا ہوئے۔
کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے بلاک چین ٹیکنالوجی سے سپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی سینٹرل ریزرو نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی کمپیوٹر سرورز کے ذریعے اس کرنسی کی مائننگ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ درجے کے کمپیوٹرز جن میں آگ آئی بی کارڈز لگے ہوں، وہ درکار ہوتے ہیں۔
عارف نے بتایا کہ جو کارڈز وہ پہلے ایک لاکھ روپے میں فروخت کرتے تھے، اب ان کی مالیت پونے دو لاکھ سے زائد ہوچکی ہے لیکن پھر بھی دستیاب نہیں، جبکہ کرپٹو مائننگ سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں ڈھائی لاکھ روپے تک ایڈوانس پیمنٹ کر رہے ہیں کہ وہ یہ کارڈز جب بھی دستیاب ہوں ان کے لیے سنبھال کر رکھیں۔
کمپیوٹر پارٹس کے امپورٹر عدنان الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں جو کارڈز استعمال ہوتے ہیں وہ وہی ہیں جو گیمنگ یا ایڈیٹنگ کے لیے بنے کمپیوٹر میں استعمال ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے برسوں میں آن لائن گیمنگ ٹرینڈ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اب گرافِکس کارڈ کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں، لیکن مائننگ کی وجہ سے کارڈز عالمی مارکیٹ میں نایاب ہوگئے ہیں، اور اگر کہیں مل بھی رہے تو وہ بھی استعمال شدہ جو مائننگ میں استعمال ہوچکے ہوں۔‘

پاکستان نے تاحال کرپٹو کرنسی میں لین دین کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے (فوٹو: روئٹرز)

عدنان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی نئے اے آئی بی کارڈز لانچ ہو رہے ہیں وہ مائننگ کرنے والے افراد پیشگی اضافی قیمت دے کر خرید رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کام سے منسلک لوگوں کو یا تو کارڈز مل نہیں رہے یا مل بھی رہے تو استعمال شدہ اور نہایت مہنگے داموں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈیلرز پہلے کریڈٹ پر مال اٹھاتے تھے تاہم اب تو حال یہ ہے کہ پیشگی ادائیگی ہو رہی ہے اور پھر بھی کارڈز دستیاب نہیں۔
کارڈز اور دیگر پارٹس کی ڈیمانڈ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بڑھی کیوں کہ بہت سے لوگوں نے اپنا کام گھر پر شفٹ کیا جس کے لیے انہوں نے کمپیوٹر خریدے یا ان کو بہتر کیا۔
اس کے علاؤہ لاک ڈاؤن کی فراغت میں بہت سے لوگوں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے آن لائن گیمنگ شروع کردی جس کی وجہ سے آئی ٹی پارٹس کا کاروبار کورونا لاک ڈاؤن میں بھی مثبت رہا۔
عارف کے مطابق ڈیڑھ دو سال پہلے تک گاہک 50 ہزار میں گیمنگ پی سی بنواتا تھا، مگر اب 4 لاکھ سے زائد مالیت کے گیمنگ پی سی بن رہے ہیں، اور لوگ گیمنگ میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔
پاکستان نے تاحال کرپٹو کرنسی میں لین دین کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے اور اس لین دین میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم کچھ ماہ قبل خیبرپختونخوا اسمبلی میں کرپٹو مائننگ کو قانونی قرار دینے اور اسے حکومتی سرپرستی میں دیے جانے کا موضوع زیر بحث رہا۔

علی فرید کا کہنا تھا کہ ’کرپٹو کرنسی سے پاکستان دو سال کے اندر بیرونی قرضے سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔‘ (فوٹو: ٹیک رڈار)

چیف منسٹر خیبر پختونخوا کے مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیاء اللہ بنگش نے اس حوالے سے بیان دیا کہ صوبائی حکومت کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے لیے باقاعدہ این و سی جاری کرے گی۔
واضح رہے کہ دسمبر 2020 کے بعد سے بٹ کوائن کی مالیت 13 ہزار ڈالر اضافے کے بعد 33 ہزار ڈالر یعنی پاکستان 50 لاکھ روپے سے زائد ہو چکی ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں اقتصادی ماہر علی فرید خواجہ نے بتایا کہ پاکستان اپنی کھپت سے زیادہ بجلی بنا رہا ہے لیکن ٹرانسمیشن مسائل کی وجہ سے یہ بجلی ضائع ہورہی ہے جس کی قیمت حکومت مکمل ادا کر رہی ہے۔
علی فرید کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت یہی اضافی بجلی، جس کی قیمت تک ادا ہوچکی ہے، اسے کرپٹو کرنسی کی مائننگ پروجیکٹ میں استعمال کرے تو دو سال کے اندر اندر پاکستان بیرونی قرضہ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔‘
اپنے دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان 10 میگاواٹس اضافی بجلی کو استعمال میں لائے تو سال بھر میں 35 ارب ڈالر مالیت کے بٹ کوائن کی مائننگ کر سکتا ہے۔ اور اگر جے پی مورگن کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے اور بٹ کوائن ایک لاکھ 14 ہزار ڈالر کی مالیت تک پہنچتا ہے تو پاکستان 110 ارب ڈالر مالیت کی مائننگ کر سکتا ہے۔

شیئر: