Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب پر بڑھتے حملے، ’بائیڈن انتظامیہ کو تشویش‘

سعودی فضائیہ نے گذشتہ اتوار کو راس تنورہ پر ڈرون حملہ اور آرامکو کے رہائشی علاقے پر میزائل حملے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ (فوٹو: آرامکو)
امریکہ سمیت عالمی برادری کی جانب سے  پیر کو سعودی عرب پر فضائی حملوں کے کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ حملے جس جگہ سے کیے گئے ہیں، اس حوالے سے ماہرین کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔
ان حملوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پساکی کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب پر بڑھتے ہوئے حملوں نے بائیڈن انتظامیہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جبکہ مملکت کو یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا اور خطے میں دوسری جگہوں سے سکیورٹی کے حوالے سے سنگین خطروں کا سامنا ہے۔‘
سعودی عرب کو درپیش خطرات پر جین پساکی کا کہنا تھا کہ ’ان خطرات کے پیش نظر سعودی عرب کے ساتھ ہمارا قریبی تعاون جاری ہے۔‘
سعودی فضائیہ نے گذشتہ اتوار کو راس تنورہ پر ڈرون حملہ اور آرامکو کے رہائشی علاقے پر میزائل حملے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
راس تنورہ دنیا کی سب سے بڑی تیل کی بندرگاہوں میں سے ایک ہے اور الظھران میں موجود رہائشی کمپلیکس میں آرامکو میں کام کرنے والے سعودی شہری رہتے ہیں۔
ان حملوں کی سعودی عرب میں موجود امریکی سفارت خانے نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’شہریوں اور اہم تنصیبات پر یہ گھناؤنا حملہ انسانی جان کی عزت نہ کرنے اور امن کی کوششوں کی پروا نہ کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔‘
سفارت خانے کے مطابق ’امریکہ سعودی عرب اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور مملکت کی حفاظت اور اس کی سکیورٹی کے لیے ہمارا عزم مستحکم ہے۔‘
ان حملوں کی خیلج تعاون کونسل، عرب پارلیمنٹ اور تنظیم تعاون اسلامی کے ساتھ ساتھ بحرین، مصر، جبوتی، قطر، کویت اور مصر نے مذمت کی تھی۔
سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد نے گذشتہ روز بھی یمن میں مملکت کے جنوب کی طرف داغے جانے والے حوثی باغیوں کے بیلسٹک میزائل اور ڈرون کو مار گرایا گیا تھا۔
جبکہ حوثیوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی خطے پر گذشتہ اتوار کو حملے انہوں نے کیے تھے۔ جبکہ ہدف شمالی یمن سے 13 سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، جو حوثیوں کے پاس موجود بیلسٹک میزائلوں کی رینج سے زیادہ فاصلہ ہے۔
ڈرون حملے بھی سمندر سے کیے گئے ہیں، جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ یمن سے نہیں کیے گئے تھے۔
سعودی عرب پر کیے گئے ان حملوں پر سعودی سیاسی تجزیہ کار ہمدان السحری کا کہنا ہے کہ ’یہ حملے عراق میں موجود ایرانی حمایت یافتہ نیم فوجی دستوں کی جانب سے کیے گئے ہیں۔‘
جبکہ عالمی انرجی فورم کے سیکرٹری جنرل جوزف میک مونیگل کا کہنا ہے کہ ’دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی تنصیبات پر حملہ، ہر جگہ موجود توانائی کے صارفین پر حملہ ہے۔‘

شیئر: