Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بھارت کی پہچان مدرسہ‘ ٹرینڈ کیوں؟

اے پی جے عبدالکلام 2002 سے 2007 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا میں گذشتہ دو دنوں سے دو ٹوئٹر ٹرینڈز ٹاپ پر جا رہے ہیں اور یہ اپنے آپ میں انڈیا کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
گذشتہ روز بدھ سے اگر ٹاپ ٹرینڈ میں ہیش ٹیگ ’ٹررزم ان مدرسہ‘ شامل تھا تو اس کے بعد دیر رات ’بھارت کی پہچان مدرسہ‘ ٹرینڈز میں سر فہرست تھا۔ ان دونوں ہیش ٹیگز کے تحت سات لاکھ سے زیادہ ٹویٹس دیکھے جا سکتے ہیں۔
در اصل انڈیا میں مدرسہ اور مدرسے کی تعلیم ایک زمانے سے نشانے پر رہی ہے۔ ہندو سخت گیر تو ہر مسلم چیز کے خلاف نظر آتے ہیں لیکن انھیں سب سے زیادہ تکلیف مدرسے سے ہوتی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق دو روز قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شوپیاں ضلعے سے مدرسے کے تین اساتذہ کو پبلک سیفٹی قانون (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے مطابق انھیں اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ ان کے مدرسہ سے 13 طلبہ کو مبینہ طور پر ’دہشت گردانہ سرگرمی‘ میں ملوث پایا گیا تھا۔
دوسری جانب ملی گزٹ کی ایک پرانی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مدرسہ کے طلبہ حیرت انگیز طور پر کشمیر میں جاری سورش سے دور رہے ہیں اور ان کی شمولیت کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’ٹیررزم ان مدرسہ‘ ہیش ٹيگ کی فوری وجہ یہی تھی۔
لیکن اس سے چند روز قبل شمال مشرقی ریاست آسام کی حکومت نے مدرسے کو ملنے والی سرکاری فنڈگ روکنے کا اعلان کیا تھا۔
ٹائمز ناؤ کی خبر کے مطابق دو روز قبل سرکاری فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ریاست کے وزیر تعلم ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ حکومت کی امداد سے چلنے والے مدرسے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں حکومت کے پیسے پر قرآن کی تعلیم نہیں دی جا سکتی ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں بائبل اور بھگوت گیتا دونوں کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم اسے بند کرکے یکسانیت لانا چاہتے ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 4 فیصد طلبہ مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ویسے ہی سرکاری تعلیم کی حالت خستہ ہے اور ایسے میں مدرسوں کا بند کیا جانا افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مدرسوں کو عام سکول میں تبدیل کیے جانے سے بہت حد تک تعلیم متاثر ہوگی۔
مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں جو مدرسے کی تعلیم پر سکول کی تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں لیکن انڈیا میں عام تاثر یہ ہے کہ سارے مسلمان مدرسے میں ہی پڑھتے ہیں۔
انڈیا میں مسلمانوں کی خستہ حالت پر ایک تفصیلی رپورٹ سچر کمیٹی نے سنہ 2006  میں شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مدرسوں میں صرف چار فیصد مسلم طلبہ ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میں اکثریت انتہائی غریب، نادار اور یتیم بچوں کی ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری مباحثے میں جہاں مدرسوں کے بارے میں خراب تاثر پیش کیا گیا ہے وہیں ہندی زبان میں چلنے والے ہیش ٹیگ ’بھارت کی پہچان مدرسہ‘ میں سینکڑوں لوگوں نے کہا ہے کہ انڈیا کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام بھی مدرسے کی ہی پیداوار تھے۔ 
ان کی تصویر کے ساتھ آر ایس ایس والے افراد کی لاٹھی ڈنڈے کے ساتھ تصویر پوسٹ کرکے یہ پوچھا گیا ہے کہ ’آپ کے رول ماڈل کون ہیں؟‘
’ٹیررزم ان مدرسہ‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ پوجا اگروال نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’آپ کا رول ماڈل کون ہے؟‘
ڈاکٹر نرگس کوثر نامی ایک صارف جن کے 12 ہزار سے زیادہ صارف ہیں نے لکھا کہ ’صالحین میں سے ایک نے کہا: ہم مساجد میں پڑھتے تھے، پھر سکول کھلا تو برکت چلی گئی۔ پھر کرسیاں آئیں تو انکساری چلی گئی۔ اور جب اسناد متعارف کرائی گئی تو سنجیدگی چلی گئی۔‘
بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ جب آر ایس ایس اور (اس کے رہنما) ساورکر برطانوی ظالموں کی چاپلوسی کر رہے تھے تو دیوبند مدرسہ برطانیہ کے تسلط سے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اور قربانیاں دے رہا تھا۔
صحافی ثناءاللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم انتظار کر رہے ہیں کہ دارالعلوم پھر آگے آئے اور انڈیا کو برطانیہ کے غلاموں کی فاشزم سے آزاد کرائے۔‘
الپناہ نامی صارف جن کے 25 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں نے لکھا کہ ’مدرسہ انسانیت کی بقا کا نام ہے۔ مدرسہ ہمیں سماج میں جینے کے لیے حساس بناتا ہے۔‘
بہت سے لوگوں نے مدرسہ اور آر ایس ایس کے نظریات اور ان کی تعلیمات کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے تصاویر کا سہارا لیا ہے۔

شیئر: