Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خفیہ‘ کیمروں کا معاملہ‘: تحقیقات کے لیے سینیٹ کی چھ رکنی کمیٹی

اپوزیشن سینیٹرز کے مطابق پولنگ بوتھ پر لگے کیمروں میں ووٹ ڈالنے والے کو دیکھا جا سکتا ہے (فوٹو: مصدق ملک، ممصطفی نواز)
سینیٹ پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کی تنصیب کے معاملے کی تحقیقات کے لیے پریزائڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے سینیٹ کی چھ رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا ہے۔
کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے تین، تین ارکان شامل ہوں گے۔
اس سے قبل پولنگ بوتھ میں کیمرے اور مائیکروفون سامنے آنے کے معاملے پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے سینیٹ کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
 
جمعے کو اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے سینیٹ کے پریزائڈنگ آفیسر کو خط لکھا تھا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر اور ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنے خط میں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ واقعہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور پاکستان کے آئین کے لیے ایک دھچکا ہے۔‘
اپوزیشن کے دونوں رہنماؤں نے اپنے خط میں پریزائڈنگ آفیسر سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے سینیٹرز برابر تعداد میں شامل ہوں۔‘
پاکستان کی سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب سے قبل اپوزیشن نے کچھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ پولنگ بوتھ میں کیمرے اور مائکروفون لگا کر حکومت دھاندلی کی کوشش کر رہی ہے۔
دوسری طرف حکومتی وزرا نے اس معاملے کو اپوزیشن کا ’ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نیوز کانفرنس میں بھی کیمروں اور مائکروفون کا ذکر کیا، ان کا کہنا تھا کہ کیمرہ اس طرح لگایا گیا ہے کہ ووٹ دینے والے کو واضح طور پر دیکھا جا سکے۔
پولنگ بوتھ میں کیمروں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ‏ایک کیمرے کا رخ ایسا تھا کہ ووٹ ڈالنے والا شخص نظر آئے، ‏بوتھ  میں 30 سے 40 کے قریب سوراخ تھے تاکہ پتا نہ چلے کہ کیمرا ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ‏دوسرے کیمرے کا رخ ایسا تھا کہ بیلٹ پیپر صاف نظر آئے گا۔
مصدق ملک نے پولنگ بوتھ کے اوپر دو کیمروں کی موجودگی کا ذکر کیا تو کہا کہ ’‏بظاہر لگتا ہے کیمرہ بھی ہے اور مائیکرو فون بھی ہے، کسی کو نہیں پتا کتنے کیمرے اور مائکروفون لگے ہوئے ہیں‘۔
الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے دعوی کیا کہ حکومت کیمروں کے ذریعے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے پولنگ بوتھ میں کیمروں کی نشاندہی کا معاملہ ایک ٹویٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔

اپوزیشن کی جانب سے نشاندہی کے بعد سینیٹ انتخابات کے لیے پرایزائیڈنگ افسر نے ہدایت کی کہ نئے پولنگ بوتھ بنائے جائیں تاکہ دونوں اطراف کی تسلی ہو سکے۔
سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب سے قبل سینیٹ اجلاس میں 48 نومتنخب سینیٹرز نے رکنیت کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’کیمرے لگانا آئین کے خلاف ہے‘۔ قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے فلور دینے کی مخالفت کی۔
وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پولنگ بوتھ میں کیمروں کے معاملے پر گفتگو آگے بڑھائی تو الگ الگ ٹویٹس میں ایک ’جاسوس کیمرے‘ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ عام کیمروں سے بہتر ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے فواد چوہدری کی شیئر کردہ تصویر کو موضوع بنایا تو کہیں ان کے شیئر کردہ کیمرے کی سپیسیفیکیشن بتا کر کہا کہ اس سے لائیو کوریج نہیں ہو سکتی، کوئی ان کے پوائنٹ کو ’بات گھمانے کی کوشش‘ کہتا رہا۔
سینیٹ کے پولنگ بوتھ میں کیمرے تھے یا نہیں اور کیسے تھے پر بات آگے بڑھی تو پہلی مرتبہ ’خفیہ کیمرے‘ کی تصویر شیئر کرنے والے مصطفی نواز کھوکھر نے فواد چوہدری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب معاملے کو اس پہلو سے بھی دیکھیں گے۔

کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ایک ٹویٹ میں اوٹ کے لیے استعمال ہونے والے لکڑی کے ایک پردے کی تصویر شیئر کی جس پر فواد چوہدری کی شیئرکردہ تصویر جیسا سکرو نمایاں تھا۔
قبل ازیں وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے پولنگ بوتھ میں کیمروں سے متعلق اپوزیشن کے موقف کو ’ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جنہوں نے یہ ڈرامہ رچایا وہ خود سب سے پہلے پہنچے، ہم چاہیں گے کہ اس معاملے کی پوری تحقیق کی جائے‘۔
پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر نیوزکانفرنس میں وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم سب کو بتائیں گے کہ اپوزیشن جماعتوں نے کس کس کو بھرتی کرایا ہے۔

شیئر: