Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف پُرتشدد مظاہرے جاری، مزید 14 افراد ہلاک

مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق ’میانمار میں جاری پرتشدد مظاہروں میں اب تک 80 افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)
میانمار میں جاری پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز نے مزید 14 مظاہرین کو ہلاک کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے میانمار ناؤ نیوز سروس کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’ اتوار کے روز 14 مظاہرین ہلاک ہوئے جبکہ کچھ دیگر مقامی میڈیا کے اداروں نے اس سے بھی زیادہ ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے۔‘
میانمار ناؤ کا کہنا ہے کہ ’یہ معلومات انڈسٹریل ڈسٹرکٹ کے قریب ایک ہسپتال اور ریسکیو ورکر کے ذریعے حاصل ہوئیں۔‘

 

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق فوجی بغاوت کے پانچ مخالفین کو اتوار کے روز ہلاک کیا گیا جبکہ فوجی حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
فوجی بغاوت کے ذریعے بے دخل کیے گئے ارکان پارلیمنٹ نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ قوم کے اس تاریک ترین لمحے کے دوران ’اپنا دفاع کریں۔‘
میانمار میں یکم فروری کو سویلین لیڈر آنگ سان سوچی کی حکومت ختم کرنے کے بعد سے فوجی حکومت کے خلاف ہزاروں افراد نے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب فوجی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ نومبر 2020 میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانی پر دھاندلی کی گئی۔ ان الیکشنز میں آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
فوجی حکومت کے خلاف بے دخل کیے گئے منتخب ارکان پارلیمنٹ جن کی اکثریت روپوش ہے کے ایک گروپ نے ایک شیڈو ’پارلیمنٹ‘ تشکیل دی ہے۔

فوجی حکومت کے خلاف بے دخل کیے گئے منتخب ارکان پارلیمنٹ نے ایک شیڈو ’پارلیمنٹ‘ تشکیل دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اتوار کو اس گروپ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مظاہرین کو فوجی حکومت کے خلاف اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے جو کہ ملک میں تشدد پھیلا رہی ہے۔‘
میانمار میں فوج اور پولیس کے اہلکار حالیہ ہفتوں کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں اور انہیں منتشر کرنےکے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ نے کہا ہے کہ ’میانمار میں جاری ان پرتشدد مظاہروں میں اب تک 80 افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم اتوار کو ینگون میں ہونے والے واقعات کے بعد اس تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔‘

شیئر: