Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت مارچ منتظمین کے خلاف درخواست کے لیے بنچ تشکیل، سماعت 26 اپریل کو

عورت مارچ کے منتظمين نے سماجی کارکنان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت سے اپیل کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ منتظمین کے خلاف دائر درخواست 26 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ میں جسٹس عامر فاروق عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف درخواست پر سماعت کریں گے۔ 
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عورت مارچ اور ویلنٹائنز ڈے جیسی دیگر تقریبات پر پابندی کے احکامات جاری کیے جائیں۔ 
شہدا فاؤنڈیشن کی جانب سے طارق اسد ایڈووکیٹ نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔ 
درخواست گزار نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں 8 مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کے دوران توہین مذہب اور غیر اخلاقی پلے کارڈز اور نعرے لگائے گئے تھے۔ 
درخواست گزار نے عورت مارچ کے منتظمین پر پابندی عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے تمام غیر ملکی اور غیر سرکاری تنظیموں کی فنڈز کی تفصیلات طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔
درخواست گزار نے پاکستان میں عورتوں کے حقوق سے متعلق معاملہ غور کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی بھی استدعا کر رکھی یے۔
اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مقامی عدالت نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نکلنے والی ریلی کے منتظمین پر لگائے گئے توہین مذہب کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو ہونے والی ریلی کی ویڈیوز اور تصاویر میں رد و بدل کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ گئیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے منتظمین کے خلاف درج مقدمے میں تحقیقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو ہونے والی ریلی کی ویڈیوز اور تصاویر رد و بدل کے ساتھ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں جن کی بنیاد پر الزامات لگائے گئے۔
پشاور میں وکلا کے ایک گروپ نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والی ریلی کے شرکا کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر ’غیر اسلامی اور فحش‘ نعرے اور پیغامات درج تھے جن میں پیغمبر اسلام اور ان کی ایک زوجہ کی توہین کی گئی۔
عورت مارچ کے منتظمين کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جھوٹے اور اشتعال انگیز الزامات بالخصوص گستاخانہ نعرے اور بینرز کے حوالے سے بیانات کی حقیقت سے پہلے بھی کئی مرتبہ پردہ اٹھایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا مقرر ہے، تاہم اب تک کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ توہین رسالت کے مشتبہ ملزمان کو اکثر مشتعل افراد قتل کر دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پاکستان میں طالبان کی کالعدم تنظیم نے بھی 12 مارچ کو عورت مارچ کے شرکا کے خلاف دھمکی آمیر بیان جاری کیا تھا۔
عدالتی حکم کے بعد عورت مارچ کے منتظمين نے سماجی کارکنان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت سے اپیل کی تھی۔

شیئر: