Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کو ایران جوہری معاہدے میں واپس لانے کے لیے ’مذاکرات‘

معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے حوالے سے مذاکرات اگلے ہفتے ویانا میں ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دنیا کی اہم طاقتیں اور تہران 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی طرف واشنگٹن کی واپسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں اور اس امر پر متفق ہیں کہ نئے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔  
عرب نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ اس معاہدے کے شراکت دار ہیں اور تہران کے جوہری عزائم پر تحفظات رکھتے ہیں۔
یورپی یونین کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کے حکام ویانا میں منگل کو ملاقات کریں گے۔
امریکہ مذاکرات میں براہ راست حصہ نہیں لے گا کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں جوہری معاہدے سے نکل گئے تھے، تاہم یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آسٹرین دارالحکومت میں امریکہ کے ثالث واشنگٹن کی طرف سے حکام سے الگ الگ رابطہ کریں گے۔
ایک یورپی سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ ’ایران اور امریکہ ایک ہی شہر میں ہوں گے مگر ایک ہی کمرے میں نہیں۔‘
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ مذاکرات کا مقصد ایران سے پابندیاں اٹھانے کے لیے تیزی سے بڑھنا ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا ’ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقات نہیں ہوگی۔‘
 امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ویانا مذاکرات کو ایک ’صحت مند قدم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’واشنگٹن کا تہران کے ساتھ براہ راست رابطے کا دروازہ کھلا رہے گا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی ابتدا ہے اور ہم کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں رکھتے کیونکہ ابھی کافی مشکل باتیں ہونا باقی ہیں۔
یورپی یونین کے سفارت کار اینرق مورا نے ٹویٹ کرتے ہوئے جمعے کے روز ہونے والی ہونے ورچوئل میٹنگ کو ’مثبت‘ قرار دیا تاہم ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ معاہدے کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
یورپی یونین کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ برسلز اس ضمن میں کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہا ہے اور امید یہی ہے کہ اگلے دو ماہ کے دوران امریکہ معاہدے کی طرف پلٹ آئے گا۔
مشرق وسطیٰ کے ماہرین کی جانب سے مذاکرات میں خلیجی ریاستوں کی شمولیت پر زور دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایرانی حکومت کی حمایت یافتہ ملیشیا اس کے میزائل اور ڈرونز کا سامنا کر رہی ہیں۔
کویت کی وزارت اطلاعات سے وابستہ ڈاکٹر ہادی بن عائد نے عرب ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’گلف کارپوریشن کونسل کو ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات میں شرکت کرنی چاہیے۔‘
بن عائد نے یہ بھی کہا کہ ایران کی طرف سے تاخیری حربے خطے اور دینا کو سوائے جنگ اور بدامنی کے کچھ نہیں دیں گے۔
پچھلے معاہدے کے وقت بھی گلف کارپوریشن کونسل کی غیرموجودگی کے باعث ایران کو یمن، شام اور دوسرے ممالک میں مداخلت کا موقع ملا۔
خیال  رہے 2018 میں سابق امریکی صدر جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیوں کا اعلان کیا گیا تھا۔

شیئر: