Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی صدر محمود عباس ’طبی معائنے‘ کے لیے جرمنی روانہ

حالیہ سالوں میں محمود عباس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
فلسطینی حکام نے بتایا ہے کہ صدر محمود عباس جرمنی کے سرکاری دورے پر جانے کے لیے پیر کے روز ہیلی کاپٹر کے ذریعے اردن روانہ ہو گئے۔
فلسطینی صدر کا جرمنی میں طبی معائنہ بھی کیا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق محمود عباس کے دفتر نے ان کے دورے کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں جبکہ ان کے اس دورے کا پہلے سے اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا۔
ایک فلسطینی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ جرمنی میں معمول کا طبی معائنہ کروائیں گے۔‘
85 سالہ فلسطینی صدر جو بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں اور انہیں دل کے مسائل کا سامنا بھی رہا ہے، حالیہ دنوں میں کئی عوامی تقریبات میں نظر آئے اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ بیمار ہیں۔ انہوں نے گذشتہ مہینے کورونا ویکسین کا پہلا انجکشن بھی لگوایا۔
تاہم حالیہ برسوں میں وہ اپنے طبی علاج کے لیے بیرون ملک جاتے رہے ہیں۔ محمود عباس 2018 میں اقوام متحدہ کے قومی سلامتی کے اجلاس سے خطاب کے دوران کمزور دکھائی دیے تھے، جس کے بعد انہوں نے امریکا میں ایک ہسپتال سے رجوع کیا تھا۔
تھکاوٹ اور سینے میں تکلیف کے باعث فلسطینی صدر کی 2016 میں انجیوگرافی کی گئی تھی لیکن ڈاکٹروں نے ان کی صحت کو ٹھیک قرار دیا اور وہ جنوبی کنارے کے ہسپتال سے فوری طور پر ڈسچارج کر دیے گئے تھے۔
انہوں نے کبھی اپنے جانشین کا اعلان نہیں کیا اور کہا جاتا ہے کہ ان کی فتح پارٹی کے کئی سینیئر ارکان کی نظریں ان کے عہدے پر ہیں۔
محمود عباس نے 2004 میں مشہور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی موت کے بعد عبوری صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا۔ اس سال انہیں چار سال کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن وہ اپنے عہدے کی معیاد ختم ہونے کے بعد بھی اقتدار میں موجود ہیں۔
فلسطین میں 2006 میں اسلامی عسکریت پسند تنظیم حماس کی پارلیمانی انتخابات میں تاریخی فتح کے بعد سے انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا۔ اس نے ایک سیاسی بحران کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں حماس نے غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور محمود عباس کا اختیار اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں تک ہی محدود رہ گیا۔
تاہم اب فلسطینی صدر نے اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات اور جولائی میں صدارتی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں محمود عباس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے کیونکہ وہ ایک آزاد ریاست کے حصول اور حماس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں دکھا پائے ہیں۔

شیئر: