Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی: ناکام بغاوت میں ملوث چار سابق فوجیوں کو عمر قید کی سزا

ترک صدر طیب اردوغان نے فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر لگایا تھا (فوٹو: روئٹرز)
ترکی کی ایک عدالت نے ناکام فوجی بغاوت میں کردار ادا کرنے پر چار سابق فوجیوں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
سنہ 2016 میں ہونے والی اس بغاوت میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اینادولو کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ چار سابق فوجی بھی انقرہ کے ان 497 مشتبہ افراد میں شامل تھے جن کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے اور انہوں نے بغاوت میں کردار ادا کیا تھا جس میں سرکاری نشریاتی ادارے پر حملہ بھی شامل تھا۔ 
پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے چند حصوں نے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔
ترک صدر اس وقت مرماریس میں موجود تھے جب ٹینک استنبول کی سڑکوں پر نکلے اور جنگی جہازوں نے پارلیمنٹ پر بمباری کی اور اس وقت رجب طیب اردوغان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔
ان ہنگاموں میں میں کم از کم 250 افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے تاہم عوام کی جانب سے مسلسل مزاحمت کے بعد بغاوت کرنے والوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے جس کے بعد رجب طیب اردوغان منظر عام پر آئے اور بغاوت میں مدد دینے والے عناصر کے خلاف کارروائی شروع ہوئی۔

ہنگاموں کے دوران تقریباً 250 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ناکام فوجی بغاوت کے بعد لاکھوں سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا جبکہ ہزاروں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے، جن میں ہزاروں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔
ترک صدر نے بغاوت کا الزام ترک سکالر فتح اللہ گولن پر لگایا جو امریکہ میں مقیم ہیں تاہم فتح اللہ گولن ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
بعض ناقدین ترک صدر پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ فوجی بغاوت کے واقعے کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

شیئر: