Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پر عمل؟ 

ترین گروپ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی چہ مہ گوئیاں اور پیشین گوئیاں عروج پر ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی کی حکومت کا سفر ایک بحران کے بعد دوسرے بحران سے عبارت ہے۔ ان میں سے زیادہ تر چیلنج حکومت کے اپنے پیدا کردہ ہی رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں ایک طرف پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کو ترین کا اہم ترین چیلنج درپیش ہے۔
جہانگیر ترین نے 30 ممبران اسمبلی کے ساتھ اپنی سیاسی طاقت دکھا دی ہے۔ حکومتی کیمپ البتہ اس پر بیک فٹ پر بھی ہے اور کنفیوزڈ بھی جو بذات خود اس خطرے کی سنگینی کی عکاسی کرتا ہے۔  
ترین فیکٹر کے یہاں تک پہنچنے میں کئی عوامل کار فرما ہیں۔ ان میں سب سے بڑا کردار حکومت میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی کیمپس میں خلیج کا ہے۔ یہ خلیج جہانگیر ترین کی ہی وجہ سے سامنے آئی اور اب غیر سیاسی کیمپ ہی ان کو بطور شوگر مافیا فریم کررہا ہے اور کارروائی کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ اس دوران حکومت کے ان ترجمان وزرا کی خاموشی بھی قابل توجہ بلکہ معنی خیز ہے جو ویسے تو دن میں کئی پریس کانفرنسیں کرتے ہیں مگر اس موضوع کے قریب بھی نہیں آرہے۔ ورنہ حکومتی کارروائیوں کا کریڈٹ لینا تو بنتا ہی ہے۔  
سوال یہ بھی ہے کہ خاموش گروپ کیا ترین سے حمایت میں چپ ہے یا تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پر عمل کر رہا ہے۔ دوسری طرف ترین کا حمایتی گروپ فی الحال 22 ایم پی ایز اور آٹھ ایم این ایز کو ملا کر روایتی اور زیادہ تر دیہی سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ یہ گمان کرنا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کے باقی ابھی تک سامنے نہ آنے والے الیکٹیبلز کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہوں گی۔ کیا وہ ہمدردیاں ہی رکھیں گے یا مزید کھل کر سامنے آئیں گے، اس کا فیصلہ ابھی کچھ وقت تک نظر آئے گا۔   
ترین گروپ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی چہ مہ گوئیاں اور پیشین گوئیاں عروج پر ہیں۔ پیپلز پارٹی اور جہانگیر ترین کے آپس میں رابطے زبان زد عام ہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف کی طرف سے بھی پیغامات کی خبریں گرم ہیں۔

جہانگیر ترین کا فوری مقصد کیسز میں ریلیف حاصل کرنا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

غور کرنے کی بات ہے کہ اگر 30 ممبران اتنا سیاسی رِسک لے رہے ہیں کہ اپنی ہی حکومتی پالیسی کے خلاف کھلم کھلا ترین کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں تو کیا وہ مسقبل کے سیاسی فیصلوں کے وقت ساتھ نہیں دیں گے؟ اور اگر 30 کو ہی گروپ کی کم از کم تعداد شمار کیا جائے تو یہ گروپ اپنے وزن میں ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی (باپ) سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ 
پنجاب میں عرصے سے تیسری قوت کی نوید اور کوشش جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب سے عملی خاتمے کے بعد ق لیگ نے اپنے قدم دوبارہ جمانے کے کوشش کی ہے مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف ترین کے حامیوں کو اگر دھڑا تصور کیا جائے تو وہ ابھی بھی ق لیگ سے تعداد میں زیادہ ہے۔ غور کرنے کی یہ بھی بات ہے کہ اگر معاملات آگے بڑھے تو ترین کے لیے پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں شامل ہونے سے بہتر اپنے آپ کو بطور علیحدہ اکائی رکھنا ہو گا۔ یہ گروپ حکومت میں شامل ہونے یا اس کے قیام میں کسی بھی سطح کی بارگین کر سکتا ہے۔ 

شہباز شریف کی طرف سے بھی پیغامات کی خبریں گرم ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

پی ٹی آئی کا یہ اہم ترین سیاسی چیلنج ابھی ابتدائی سطح پر ہے۔ جہانگیر ترین کا فوری مقصد کیسز میں ریلیف حاصل کرنا ہے۔ اگر اس پریشر کے نتیجے میں کوئی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی اور کیسز میں ریلیف سامنے آیا تو اس سے سیاسی میدان میں تو بچت ہوگی البتہ احتساب کے بیانیے کو جھٹکا ضرور لگے گا۔ دوسرے آپشن کے طور پر اگر ترین گروپ نے کیسز کے علاوہ مزید سیاسی حصہ مانگا تو اس کے نتیجے میں پنجاب میں کسی بھی سطح پر تبدیلی کا امکان ہے۔ تیسرے آپشن کے طور پر ترین باوجود اس کے کہ نا اہل ہیں مگر پھر بھی اپنے آپ کو علیحدہ سیاسی قوت کے طور پر بھی پیش کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ صرف اپنے خلاف کارروائی تک ہی محدود رہتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی اننگز دوبارہ اپنی ٹیم کے کپتان کے طور پر شروع کرتے ہیں؟  اگلے کچھ ہفتے اس کے لیے اہم ہوں گے۔ 

شیئر: