Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان اصل تنازع کیا رہا؟

تحریک لیبک کے احتجاج کے دوران لاہور میں دو پولیس اہلکار تشدد سے ہلاک ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں کے پرتشدد احتجاج کے بعد حکومت نے اس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تحریک لبیک کے کارکنوں کے احتجاج کے نتیجے میں ملک کی بڑی شاہراؤں اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں دو دن خلل پڑا جبکہ متعدد مقامات پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں پنجاب پولیس کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔
مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے کارکنان کو سڑکوں پر نکلنے کی کال اس وقت دی گئی جب پیر کی شام لاہور سے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں
حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان تنازع اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ برس فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کے اشاعت کے خلاف ٹی ایل پی نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔
راولپنڈی میں یہ احتجاجی ریلی ابتدائی طور پر راولپنڈی کے لیاقت باغ سے فیض آباد تک نکالی جانی تھی تاہم انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر تحریک کے کارکنان نے نہ صرف ریلی نکالی بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دے دیا گیا۔
اس دھرنے کی قیادت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کر رہے تھے۔ دو روز تک جاری اس دھرنے کا اختتام حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدے کی صورت میں ہوا۔ جس پر اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نوراحق قادری اور اسلام آباد انتظامیہ کے دستخط موجود تھے۔

خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا سربراہ بنایا گیا۔ فوٹو: تحریک لیبک سوشل میڈیا

اس معاہدے میں حکومت نے ٹی ایل پی قیادت کو تحریری یقین دہانی کرائی تھی کہ فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے اندر ملک بدر کردیا جائے گا، فرانس میں پاکستان کا سفیر تعینات نہیں ہوگا، تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا، تحریک لبیک کے گرفتار کارکنان کو فوری رہا کردیا جائے گا بعدازاں اس مارچ کے شرکا پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔
16نومبر کو کیے گئے معاہدےکے ختم ہونے کا وقت جوں جوں قریب آتا گیا حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت کے ساتھ ایک ماہ کے مذاکرات کے بعد ایک اور معاہدہ طے کر لیا اور اس بار حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ پارلیمان میں لانے کے لیے 20 اپریل کا وقت مانگ لیا۔
اس بار حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر پیر نورالحق قادری اور شیخ رشید نے معاہدے پر دستخط کیے جبکہ مذہبی سیاسی جماعت کے شوری کے ارکان کے دستخط بھی موجود ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق تحریک لیبک پر پابندی کی سفارش پنجاب حکومت کی جانب سے کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

10 فروری کو ہونے والے اسے معاہدے کے بعد جہاں حکومت نے اپریل میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے معاملے کو پارلیمان میں لانے کی یقین دہانی کروائی دوسری جانب ٹی ایل پی کی قیادت نے 21 اپریل کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔
تاہم 12 اپریل کو وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے درمیان ہونے والی ملاقات کے چند گھنٹے بعد تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا.
اس گرفتاری کے بعد ملک کے بڑے شاہراؤں پر تحریک لبیک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

شیئر: