Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک لبیک پر پابندی ختم ہو جائے گی؟ وزرا کی بریفنگ میں ابہام

وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق تحریکِ لبیک کے پاس کالعدم قرار دیے جانے کے خلاف اپیل کا حق ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
بدھ کو وزیراعظم کی ہدایت پر تین وفاقی وزرا نے اسلام آباد میں عالمی نشریاتی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے انہیں تحریک لبیک اور فرانس کے سفیر کی ملک سے بے دخلی کے حوالے سے حکومتی پالیسی کے بارے میں بریفنگ دی۔
بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری موجود تھیں۔
تاہم تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہنے والی بریفنگ کے بعد بھی بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے مطمئن نہ ہوئے کہ آخر حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی اٹھانے کے حوالے سے مذاکرات میں جماعت کی شوریٰ کو کیا یقین دہانی کرائی کہ وہ احتجاج ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی۔
بریفنگ کے آغاز میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں اس جماعت کے پنپنے کا الزام  گذشتہ حکومت کو دیا گیا کہ اس کی پالیسیز کی وجہ سے ایسی جماعت مقبول ہوئی۔
دوسری طرف بتایا گیا کہ موجودہ حکومت نے اس جماعت سے سختی سے نمٹا ہے اور کہا گیا کہ یہ پہلی بار ہوا کہ اس طرح کی جماعت کو رعایت نہیں دی گئی۔
ویڈیو میں حکومت کی مستقبل کی حکمت عملی بھی واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی ختم نہیں ہو گی اور اس کی مرکزی قیادت کو رہا بھی نہیں کیا جائے گا صرف ان افراد کو رہا کیا جائے گا جو سنگین مقدمات کے تحت نہیں بلکہ امن و عامہ برقرار رکھنے کے تحت گرفتار کیے گئے تھے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے تحریک لبیک مذاکرات پر آمادہ نہ تھی اس لیے ان کے رہنما سعد رضوی کو گرفتار کرنا پڑا (فوٹو: ٹی ایل پی فیس بک)

شیریں مزاری نے بین الاقوامی میڈیا کو بتایا کہ قومی اسمبلی میں لائی گئی قرارداد اگر منظور بھی ہو جاتی ہے تو اس سے  فرانس کے سفیر کو نکالنے کا فیصلہ نہیں ہو گا بلکہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ خارجہ پالیسی بنائے اور پارلیمان کی قرارداد صرف ایک تجویز کی حثییت رکھتی ہے۔
منگل کو حکومت کے ساتھ تحریک لبیک کے معاہدے کے نتیجے میں لائی جانے والی قراداد حکمران جماعت کے رکن اسمبلی امجد علی خان نے پیش کی تھی، تاہم بدھ کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بین الاقوامی میڈیا کو بار بار زور دے کر بتایا کہ ’قومی اسمبلی میں لائی گئی قرارداد ایک پرائیویٹ ممبر کی ہے اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا موقف وہی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے سوموار کو پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس کے سفیر کو نکالنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مغربی ممالک سے بات چیت کر کے توہین آمیز مواد کا خاتمہ ممکن ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق کالعدم تحریک لبیک کو قانونی راستہ اختیار کرنے کا حق دیا جائے گا (فوٹو: اے پی پی)

کیا تحریک لبیک پر پابندی ختم کرنےکی کوئی ڈیل ہوئی ہے؟ وزیر اطلاعات کا تردید سے گریز

گو بین الاقوامی میڈیا کو بتایا گیا کہ حکومت تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی مگر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس کو قانونی راستہ اختیار کرنے کا حق دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ قانون کے تحت  کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد تحریک لبیک کے پاس  30 دن کا وقت ہے جس میں وہ وزارت داخلہ کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے۔ اپیل پر ایک وزارت کی ہی کمیٹی بنے گی جو اس کا فیصلہ کرے گی اور اس فیصلے سے کابینہ کو آگاہ کیا جائے گا۔
اس پر وہاں موجود غیر ملکی صحافیوں نے متعدد بار پوچھا کہ اگر مرکزی قیادت کو رہا بھی نہیں کرنا، تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی برقرار رکھنا ہے اور فرانسیسی سفیر کو بھی نہیں نکالنا تو پھر کیسے تحریک لبیک اس معاہدے پر رضا مند ہو کر احتجاج ختم کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے انہیں اپنی طاقت دکھا دی ہے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

اس کا جواب دو وزیروں نے مختلف انداز میں دیا۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنا ان کا مرکزی مطالبہ تھا حکومت نے وہ پورا کر دیا اس لیے اس پر آمادہ ہو گئے۔‘
جبکہ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے انہیں اپنی طاقت دکھا دی ہے جس کے بعد ان کو بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
تاہم میڈیا کے نمائندے اس جواب پر زیادہ مطمئن نہیں ہوئے۔ بعد میں جب وفاقی وزیر اطلاعات سے ایک نمائندے نے پوچھا کہ کیا تحریک لبیک کو حکومت نے کوئی خفیہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وزارت داخلہ کمیٹی کی سطح پر ان کی اپیل منظور کر کے پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لے گی تو انہوں نے اس کی تردید نہیں کی بس اتنا کہا دیکھیں، اب کیا ہوتا ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پرتشدد مظاہروں میں تین پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 800 کے قریب زخمی ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

کیا حکومت خون خرابہ روک سکتی تھی؟

جب وزیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا کہ تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جان سے گئے اور 800 کے قریب زخمی ہوئے جبکہ کالعدم جماعت کے آٹھ افراد بھی جان سے گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا بہتر نہ تھا کہ پہلے ہی مذاکرات سے حکومت مسئلہ حل کر لیتی اور اگر قرارداد ہی لانا تھی تو پہلے لائی جاتی، تو انہوں نے کہا کہ ’پہلے تحریک لبیک مذاکرات پر آمادہ نہ تھی اس لیے ان کے رہنما سعد رضوی کو گرفتار کرنا پڑا۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’سعد رضوری کی گرفتاری سے قبل تحریک لبیک کو قرارداد کے حکومتی متن پر بہت اعتراض تھا۔ تاہم گرفتاری اور احتجاج کے بعد انہیں بہت سخت پیغام پہنچایا گیا تو وہ رضامند ہو گئے۔‘
وفاقی وزرا نے واضح طور پر کہا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور فرانس کے شہریوں کی حفاظت کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔

شیئر: