Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین اور مختلف النسل افراد کی نمائندگی، اس آسکرز کو یاد رکھا جائے گا: ڈوئین بارنز

اب آسکرز ارکان میں سے ایک تہائی خواتین ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اس سال آسکرز ایوارڈ کے لیے پہلی بار ہر کیٹیگری میں مختلف رنگت کے حامل فنکاروں کی نامزدگی ہوئی ہے، جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہالی وڈ میں یکسانیت ختم ہو رہی ہے اور اب تنوع کے راستے ہموار ہو سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسکرز میں خواتین کے علاوہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں اور ہدایتکاروں کی نامزدگیوں کے پیچھے ہیش ٹیگ آسکر سو وائٹ می ٹو موومنٹ اور اس کے ساتھ کووڈ-19 کی وبا بھی ہے۔
سیاہ فام امریکی اداکار ڈوئین بارنز نے ڈیڈلائن نامی ویب سائٹ پر ایک کالم میں کہا ہے کہ ’میرے خیال میں اس سال کے آسکرز کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘
ہیش ٹیگ آسکرز سو وائٹ کا آغاز جنوری 2015 میں سوشل میڈیا پر ہوا تھا تاکہ اس بات کی مذمت کی جائے کہ ہر سال آسکرز کے لیے زیادہ تر سفید فام افراد ہی نامزد ہوتے ہیں۔
اس وقت آسکرز کے چھ ہزار ارکان میں سے 93 فیصد سفید فام افراد تھے اور 76 فیصد مرد
تاہم رواں سال آسکرز نے خواتین کی تعداد دگنی کرنے اور سفید فام افراد کے علاوہ دیگر آرٹسٹوں کو شامل کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔
اب آسکرز ارکان میں سے ایک تہائی خواتین ہیں اور 19 فیصد ’کم نمائندگی رکھنے والی اقلیتیں‘ ہیں۔
ڈوئین بارنز کہتے ہیں کہ 'اس میں کچھ سال لگے لیکن یہ امید کی جاسکتی ہے کہ (نامزدگیوں میں تنوع) صرف ایک بار ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔'

آسکرز سائٹ کی بانی ساشا سٹون کہتی ہیں کہ وبا کی وجہ سے بہت سی بڑی فلمیں تاخیر کا شکار بنیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہیش ٹیگ می ٹو اور آسکر سو وائٹ مہم کے علاوہ جس وجہ سے آسکرز میں تنوع دیکھنے میں آیا ہے وہ کورونا کی وبا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے باعث فلم تھیٹر بند ہوئے جس کی وجہ سے سفید فام ہدایتکاروں کی بنائی گئی بڑی فلموں میں تاخیر ہوئی۔
ان میں سٹوین سپیلبرگ کی ’ویسٹ سائڈ سٹوری‘ اور سائنس فکشن فلم ’ڈیون‘ شامل ہیں۔
آسکرز کی سائٹ کی بانی ساشا سٹون کہتی ہیں کہ کووڈ-19 کی وجہ سے بہت سی بڑی فلمیں تاخیر کا شکار ہوئیں جس کے نتیجے میں میدان دیگر فلموں کے لیے خالی ہوا۔

شیئر: